عورت اپنے خالق کی نظر میں : ڈاکٹرعارف محمود کسانہ
عورت کے بارے میں بہت کچھ کہا گیا اور کہا جاتا ہے۔ ماہرین نفسیات ہوں یا شعراء ، مذہبی رہنما ہوں یا سماجی شخصیات ، سب نے اپنے اپنے علم اور تجربہ کی بنیاد پر بہت کچھ کہا ہے۔مختلف ممالک اور تہذیوں میں عورت کے بارے میں طرح طرح کی کہاوتیں موجود ہیں۔ کہیں عورت کو کم عقل ، مسائل کی ذمہ دار اور نجانے کیا کیا کہا جاتا توکچھ نے اسے ایسا پیچیدہ معمہ قرار دیا کہ جسے سمجھنے کے لیے عمر خضر چاہیے لیکن دوسری طرف عورت کے مقام و مرتبہ اجاگر کرنے والوں کی بھی کمی نہیں۔ مولانا حالی عورت کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں۔
اے ماؤ ، بہنو ،بیٹیو!۔۔۔دنیا کی عزت تم سے ہے ۔۔۔ملکوں کی بستی ہو تم ہی۔۔قوموں کی عزت تم سے ہے
ابولاثر حفیظ جالندھری بھی اپنی نظم میں عورتوں کی یوں عزت افزائی کرتے ہیں
یہ ہماری مائیں بہنیں اور بیوی بچیاں۔۔۔ہم سمجھتے ہیں انہیں اتنا مقدس بے گماں
اس قدر پاک اور مقدس اتنی محبوب و عزیز ۔۔۔جس قدر عورت کی عفت ہے ، نہیں ہے کوئی چیز
عورت کے بارے میں مختلف نوعیت کے تصورات اور نظریات کے پیش نظر ضروری ہے کہ عورت کے خالق کی طرف رجوع کیا جائے اور معلوم کیا جائے کہ اصل حقائق کیا ہیں۔ یہ حقیقت تو سب ہی تسلیم کریں گے کہ کسی بھی چیز کے بارے میں اُس کو بنانے والا ہی سب سے بہتر بتا سکتا ہے اس غرض سے ہم عورت کے خالق اور اور اسے پیدا کرنے کرنے والے رب کی طرف رجوع کرتے ہیں اور اُس نے جو عورت کی بابت کہا ہے اُس سے آگاہی حاصل کرتے ہیں تاکہ عورت کی اصل حقیقت آشکار ہوسکے۔ رب کائنات نے انسانیت کے نام اپنے آخری پیغام میں انسان کی تخلیق اور اُس کی خصوصیات کا ذکر کیا ہے اور کہا کہ ہم نے تمام بنی نوع انسان کو قبل عزت پیدا کیا ہے ( ۷۰؍۱۷) ظاہر ہے اس میں عورت بھی شامل ہے۔ انسان ہونے کے ناطے سے جوپیدائشی خصوصیات مردوں میں ہیں وہی خوبیاں عورتوں میں بھی موجود ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مرد اور عورت دونوں کو انسان قرار دیا ہے اس ضمن میں کوئی فرق روا نہیں رکھا۔ قرآن حکیم کی روشنی میں انسانوں کی بحیثیت مجموعی خوبیوں اور خامیوں کے بارے میں ایک الگ سے کالم لکھا جائے گا سر دست ہم یہ دیکھنا چاہیں کہ بطور خاص عورت کے حوالے سے اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں کیا کہاہے یعنی عورت قرآن کی روشنی میں میں۔چونکہ موضوع اہم ہے اس لیے قرآنی آیات کے حوالے بھی ساتھ دیئے جارہے ہیں تاکہ قارئین مزید تفصیل خود دیکھ لیں۔
ابتدائے آفرینش سے چونکہ عورت معاشی طور پر مرد کی مرہون منت رہی ہے اور اسے اپنے تحفظ کے لیے بھی مرد کے سہارے کی ضرورت تھی لیکن یہی انحصار مرد کی حاکمیت کا باعث بن گیا۔ قبائلی معاشرہ ، رسوم و رواج اور مذہبی تعلیمات نے یہ تصور دیا کہ عورت کی اپنی کوئی حیثیت نہیں بلکہ وہ مرد کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ یعنی عورت پیدائش کے اعتبار سے اہم نہیں اور اس کی ذات کو پیدا کرنا مقصود نہ تھا بلکہ اس کی حیثیت ثانوی ہے اور وہ مرد کی دلجوئی کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ اس تصور کو اسلام نے رد کرتے ہوئے سورہ نساء کی پہلی ہی آیت میں انسان کی تخلیق کے بارے میں بتایا کہ اُسے نفس واحدہ سے پیدا کیا ۔ دور حاضر کے مفسرین نفس واحدہ سے مراد ایک خلیہ لیتے ہیں جس سے تمام انسانوں کی تخلیق ہوئی۔ یہی تصور جدید سائنسی تحقیقات کے بھی مطابق ہے گویا تمام انسان یعنی مرد اور عورتوں کی تخلیق کا آغاز ایک سیل سے ہوا تھا لہذا پیدائش کے اعتبار دونوں یکساں ہیں۔ اسی حقیقت کو سورہ الاعراف کی آیت ۱۸۹ میں پھر دہرایا کہ تمام انسانوں کو نفس واحدہ (Single Cell) سے پیدا کیا ۔ ان دونوں قرآنی آیات سے اس تصور کی نفی ہوجاتی ہے کہ تخلیق کے لحاظ سے عورت کی حیثیت ثانوی ہے۔ ہمارے ہاں یہ تصور بھی عام کہ حضرت آدم نے اپنی بیوی یعنی حضرت حواکے کہنے پر ہی شجر ممنوع کھایا تھا تھا۔ گویا آدم کے جنت سے نکلوائے جانے کاذمہ دار عورت کو قرار دیا جاتا ہے۔قرآن حکیم نے اس تصور کو بھی رد کردیا اور بتایا کہ شیطان نے دونوں کو ورغلایا اور دونوں نے غلطی کا ارتکاب کیا (سورہ بقرہ ۳۶)۔ چونکہ دونوں مشترکہ طور پراس کے ذمہ دار تھے اور دونوں نے اس کا اعتراف کرتے ہوئے بیک زبان دونوں نے توبہ کی دعا کی (سورہ االاعراف ۲۳) اللہ تعالیٰ نے دونوں کی توبہ قبول کی ۔ یہاں یہ امر بھی اہم ہے کہ قرآن مجید میں حوا کا نام تک نہیں آیا۔
خالق کائنات نے بھی واضع کردیا کہ مرد ہو یا عورت جو بھی نیک اعمال کرے گا اُسے جنت ملے گی (۱۹۵؍۳، ۷۱؍۹)۔ اس کی مزید وضاحت سورہ نساء کی آیت ۱۲۴ میں یوں کی، اور جو کوئی نیک اعمال کرے گا (خواہ) مرد ہو یا عورت درآنحالیکہ وہ مومن ہے پس وہی لوگ جنت میں داخل ہوں گے اوران کی تِل برابر (بھی) حق تلفی نہیں کی جائے گے۔ سورہ النحل کی آیت ستانوے میں یہی اصول پھر دہرایا ، جو شخص نیک عمل کرے مرد ہو یا عورت، لیکن باایمان ہو تو ہم اسے یقیناً نہایت بہتر زندگی عطا فرمائیں گے۔ اور ان کے نیک اعمال کا بہتر بدلہ بھی انہیں ضرور ضرور دیں گے۔ اس حقیقت کو تو سب تسلیم کرتے ہیں کہ اسلام سے پہلے وراثت میں عورت کا حصہ نہیں ہوتا تھا اور اسلام نے ہی عورت کو یہ حق دیا۔ قرآن حکیم نے اعلان کیا کہ، مردوں کے لئے اس (مال) میں سے حصہ ہے جو ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں نے چھوڑا ہو اور عورتوں کے لئے (بھی) ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں کے ترکہ میں سے حصہ ہے۔ وہ ترکہ تھوڑا ہو یا زیادہ (اللہ کا) مقرر کردہ حصہ ہے(سورہ نساء آیت ۷)۔ اسلام نے عورتوں کو کام کرنے اور کمانے کا کی اجازت دیتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ عورتیں کما بھی سکتی ہیں اور وہ اپنے مال کی مالک و مختار بھی ہیں۔ سورہ نساء کی آیت ۳۲ میں اس کی وضاحت یوں کی ، اور تم اس چیز کی تمنا نہ کیا کرو جس میں اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے، مردوں کے لئے اس میں سے حصہ ہے جو انہوں نے کمایا، اور عورتوں کے لئے اس میں سے حصہ ہے جو انہوں نے کمایا، اور اللہ سے اس کا فضل مانگا کرو، بیشک اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔ عورت کو اپنی زندگی کا سب سے اہم فیصلہ یعنی شادی اوراپنے جیون ساتھی کواپنی مرضی سے چننے کا حق بھی اسلام نے دیا اور قرآن حکیم میں واضع کیا کہ عورت کی زبردستی شادی نہ جائے (۱۹؍۴)۔ اسی طرح شادی کے لیے بلوغت کو بھی اہم قرار دیا تاکہ اپنی زندگی کے اہم ترین فیصلہ کے وقت وہ باشعور ہوں اس طرح کم سنی کی شادی کا راستہ بند کیا (۶؍۴)۔
خالق کائنات نے مرد ور عورت کو ایک دوسرے کا لباس قرار دیا ہے (۱۸۷؍۲) یعنی وہ ایک دوسرے کا زوج یعنی complementary part ہیں۔ قرآن حکیم عورتوں کو مردوں کا ہمدوش قرا دیتا ہے۔ انہیں نہ صرف اس دنیا میں بلکہ آخرت میں بھی ایک دوسرے کا ساتھی اور مددگار کہا ہے ۔ سورہ توبہ کی آیت ۷۱ میں ہے اور اہلِ ایمان مرد اور اہلِ ایمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق و مددگار ہیں۔ وہ اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے روکتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت بجا لاتے ہیں، ان ہی لوگوں پر اللہ عنقریب رحم فرمائے گا، بیشک اللہ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہے۔ خالق کائنات مردوں اور عورتوں کو زندگی کے ہر شعبہ میں دونوں کو ساتھ ساتھ رکھتا ہے۔ سورہ احزاب کی آیت ۳۵ کو دیکھیے اور جھوم جایئے کہ کس طرح وضاحت سے یہ بیان کیا ہے کہ جو خوبیاں مردوں میں ہیں وہی عورتوں میں بھی موجود ہیں۔ مردوزن کی تفاوت کے حوالے سے دنیا کے کسی بھی لٹریچر میں ایسی تفصیلی یکسانیت اور ادبی حسن نظر نہیں آئے گا۔ ارشاد ہوتا ہے بیشک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں، اور مومن مَرد اور مومن عورتیں، اور فرمانبردار مرد اور فرمانبردار عورتیں، اور صدق والے مرد اور صدق والی عورتیں، اور صبر والے مرد اور صبر والی عورتیں، اور عاجزی والے مرد اور عاجزی والی عورتیں، اور صدقہ و خیرات کرنے والے مرد اور صدقہ و خیرات کرنے والی عورتیں اور روزہ دار مرد اور روزہ دار عورتیں، اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں، اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرنے والے مرد اور ذکر کرنے والی عورتیں، اللہ نے اِن سب کے لئے بخشِش اور عظیم اجر تیار فرما رکھا ہے۔ غور کریں کہ زندگی کا کون سا گوشہ اور خوبی رہ گئی ہے جو صرف مردوں میں ہو اور عورتیں اس سے محروم ہوں۔ علامہ اقبال نے عورت کی عظمت اور اہمیت کو کس خوبصورتی سے پیش کیا ہے کہ
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ ۔۔۔اْسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں
شرف میں بڑھ کے ثریا سے مشت خاک اس کی۔۔۔کہ ہر شرف ہے اْسی درج کا در مکنوں
مکالمات فلاطوں نہ لکھ سکی لیکن ۔۔۔اْسی کے شعلے سے ٹوٹا شرار افلاطوں