آٹھ سال بعد پاکستان میں کیا دیکھا1

آٹھ سال بعد پاک سرزمین پر قدم رکھنا ایسا پر لطف لمحہ تھا جسے لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے۔ اپنے شہر سیالکوٹ کے بین الاقوامی ہوائی اڈہ پر اترنے کا ہمارا پہلا تجربہ تھا۔شہر اقبال دنیا بھرمیں پاکستان کی پہچان ہے اور یہ ہم جیسے اس شہر کے باسیوں کے لیے باعث فخر ہے۔

 ایک طویل عرصہ کے بعد وطن عزیز میں بہت کچھ نیا تھا اور ساتھ ہی ہم "تبدیلی" بھی دیکھنے کے مشتاق تھے جس کی گونج دنیا بھر میں ہے۔ بڑے بڑے محلات جیسے شادی ہالز، نجی تعلیمی ادارے، غیر سرکاری ہسپتال، نت نئے ریستوران اور شاپنگ مالز کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ نظر آیا ہے۔ آبادی کے ایک طبقہ کے معیار زندگی میں بہت بہتری  نظر آئی اور وہی لوگ بازاروں اور شاپنگ مالز کی رونق ہیں۔ پاکستانی دل زندہ ہیں اور جینے کا ہنر جانتے ہیں۔ حکومت کو ٹیکس دینے والوں کی تعداد بہت کم ہے لیکن حکومت کی طرف سے بہت سی سہولتوں کے مزے سب لیتے ہیں۔ پاکستان کے شہریوں کئی ایک ایسی سہولتیں بھی حاصل ہیں جو سویڈن جیسی فلاحی مملکت کے شہریوں کو بھی حاصل نہیں جو دنیا میں سب سے زیادہ ٹیکس دینے والے لوگوں میں شامل ہیں۔

 پاکستان میں عوام کو مفت علاج معالجہ کی سہولتیں جن میں ڈاکٹر کے پاس تقریباً مفت معائنہ، ایمرجنسی میں مفت اور فوری طبی امداد، آؤٹ ڈور مریضوں کو مفت ادویات، ہیلتھ کارڈ سے غریبوں کو سات لاکھ روپے تک مفت ادویات، سپیشلٹ ڈاکٹر کے پاس براہ راست رسائی،  دانتوں کا مفت علاج، کالج اور یونیورسٹیوں میں انتہائی کم فیس پر تعلیم اور ہاسٹلوں کی صورت میں رہائش کا بہترین نظام جو یورپ میں بھی نہیں، جانوروں کا مفت علاج اور ادویات، پورے ملک میں تقریبا ًمفت کار پارکنگ، زرعی شعبہ کے لئے مفت مشاورتی اور امدادی سلسلہ اور بہت سے دیگر امور شامل ہیں۔ پاکستانی عوام کو اس ملک کی قدر کرنی چاہیے اوراس کی تعمیر وترقی میں بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے۔

تصویر کا دوسرا رخ یہ کہ انفرادی سے اجتماعی سطح پر بڑے بڑے مسائل ہیں جنہوں نے معاشرے کے حسن کو گہنا دیا ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ اخلاقی تربیت کا فقدان ہے اور آئے روز ایسے واقعات ہوتے ہیں کہ سر شرم سے جھک جاتا ہے۔۔ ٹریفک بے ہنگم اور بغیر اصول و ضوابط کے جاری ہے۔ماحولیاتی آلودگی بہت بڑا مسئلہ ہے۔ حکومت کی طرف سے عوامی مقامات پر کوڑے دان (ڈسٹ بن) نہیں اور نہ ہی کوڑے کرکٹ کو ٹھکانے لگانے کا کوئی بندوبست ہے۔ ملک میں مقامی حکومتیں موجود نہیں اور بلدیاتی نظام منتخب نمائندوں کی بجائے افسر شاہی کے سپرد ہے۔ عوام کے بنیادی مسائل کو تعلق بلدیاتی اداروں سے جڑا ہوتا ہے اور حیرت کی بات ہے کہ”تبدیلی سرکار“ جو بلدیاتی اداروں کی پرجوش داعی تھی اس نے ابھی تک بلدیاتی انتخابات کا کوئی منصوبہ نہیں بنایا۔پاکستان کا عدالتی نظام انتہائی فرسودہ اور ناکارہ ہے۔ قانون شکنی ایک عام سی بات ہے۔ جرائم کی تفتیش کا نظام، ور عدالتی طریقہ کار ناکارہ ہے۔ پولیس اور عدالتی میں میجر سرجیکل آپریشن کی ضروت ہے۔ عوام ’’تبدیلی“ کے لئے حکومت کی طرف دیکھتی ہے لیکن اپنی روش میں کوئی تبدیلی نہیں لانا چاہتی۔ جب تک عوام اپنی سوچ میں اور حکومت نظام مملکت میں تبدیلی نہیں لاتے، تبدیلی محض ایک نعرہ بن کر رہ جائے گی۔

اس صورت حال کے باوجود وہاں بہت سے درمندلوگ عملی تبدیلی کے کوشاں ہیں اور وہ سب باتوں سے قطع نظر لوگوں کے مسائل کے حل اور ان کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کرنے کے لئے جدوجہد کررہے ہیں۔ انہی میں ایک درخشاں مثال بھمبر آزادکشمیر میں قائم چنار ڈائیلیسسز سینٹر ہے جو گردوں کے مریضوں کے لئے مفت خدمات سرانجام دے رہا ہے۔ اس ادارہ کے سربراہ چوہدری غلام احمد نے ہمیں 11 سال سے جاری انسانی خدمت کے اس عظیم مرکز کا دورہ کروایا اور تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ ہر روز پچاس مریضوں کا یہاں نہ صرف مفت ڈائیلیسسز کیا جاتا ہے بلکہ انہیں مفت آمدورفت کی سہولت بھی دی جاتی ہے۔ یہ سارا سلسلہ مخیر لوگوں کے تعاون سے جاری ہے۔

 بھمبر ہی میں انسانی خدمت کی ایک اور مثال یونائیڈ ویلفئیر فاونڈیشن ہے جو علاقہ کے عوام کے لئے ایمبولنس سروس مہیا کرتی ہے۔ سیالکوٹ میں پاکستان کونسل فار سوشل ویلفئیر اینڈ ہیومن رائٹس جناب اعجاز نوری کی قیادت معاشرتی خصوصاََ خواتین اور اقلیتوں کی فلاح و بہبود کام کررہی ہے۔ ان کے ہمراہ سمبڑیال میں محکمہ سوشل ویلفئیر کے ادارہ میں تربیت مکمل کرنے والی خواتین کو تقسیم اسناد کی تقریب میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے شرکت کی۔سیالکوٹ کے ایک چرچ میں بین الامذاہب مجلس مذاکرہ میں شرکت اور بشپ آف سیالکوٹ ایلون جان سیموئیل سے اچھی ملاقات رہی جس میں سابق ایم پی اے طاہر ہندلی، اعجاز نوری  اور برطانیہ سے دورہ پر آیا ہوا وفدبھی موجود تھے۔

اگرسیالکوٹ میں ہوں اور علامہ اقبال کی جائے پیدائش نہ جایا جائے یہ کیسے ہوسکتا ہے۔ اقبال منزل کے منتظم جناب سید ریاض حسین شاہ بہت تپاک سے ملے اور مجلس اقبال سیالکوٹ کے روح رواں ناصر لودھی نے اقبال منزل کا تفصیلی دورہ کروایا۔ اپنی مادر علمی گورنمنٹ مڈل سکول کوریکی، گورنمنٹ پائیلٹ ہائی سکول بھمبر آازادکشمیر اور گورنمنت مرے کالج سیالکوٹ میں حاضری دے کر اپنا زمانہ طالب علمی پھر سے یاد آگیا۔ پائیلٹ ہائی سکول بھمبر کے اساتذہ اور طلبہ نے بہت یادگار استقبال کیا جو ہمیشہ یاد رہے گا۔ سکول کے پرنسپل چوہدری خادم حسین، سنئیر مدرس زاہد عالم اور دیگر اساتذہ سے مل کر بہت خوشی ہوئی۔دی لرنر سکول بھمبر کے پرنسپل عتیق الرحمٰن نے اپنے تعلیمی ادارہ کے دورہ کہ دعوت دی۔ اس موقع پر طلبہ سے خطاب کرکے انہیں اپنی تمام تر توجہ تعلیم و تربیت پر مرکوز کرنے کا پیغام دیا۔

 یونیک پبلک سکول چونڈہ کے سربراہ وقار احمد بھٹی کے دعوت پر وہاں کے طلبہ سے مل کے اور اظہار خیال کیا اور پھر گورنمنٹ تبلیغ الاسلام ہائی سکول چونڈہ کی تقسیم انعامات کی تقریب

میں شرکت میرے لئے عزت افزائی تھی۔ چونڈہ پریس کلب کے صدر زبیر احمد صدیقی، سابق صدرخرم شہزاد اور مرزا نوید حسین سے مختصر لیکن پرجوش ملاقات ہوئی۔ (جاری)

Links
https://www.dailyausaf.com/epaper/popup.php?newssrc=issues/2020-01-17/101272/p10_07.gif
https://urduqasid.se/after-8-years/
http://www.karwan.no/12502/pakistan-visit-1/
http://shanepakistan.com/?p=70976
http://azkaar.com.pk/admin/ckfinder/userfiles/images/2020/1/18/p12.jpg


20 Jan 2020


Afkare Taza: Urdu Columns and Articles (Urdu Edition)

This website was built using N.nu - try it yourself for free.(info & kontakt)