میرا پیمبر عظیم تر ہے
غالب جیسا عظیم اور قادرالکلام شاعر جس کی نظروں میں اعجاز مسیحا محض اک بات ہے اور دنیا کی وسعتوں اور رنگینیوں کووہ شب و روز کا تماشہ قرار دے کر کوئی اہمیت نہیں دیتا۔ اُسے اپنے اہل زباں ہونے پر نہ صرف فخر ہے بلکہ وہ اپنے آپ کو ریختہ کا استاد بھی قرار دیتا ہے۔ لیکن اَسی غالب کے سامنے جب مدح شاہ دوعالم کا موقع آیا تو اسی غالب کو اپنی کم مائیگی کا احساس ہوا۔ جس کے سامنے الفاظ باندی کی طرح کھینچے چلے آتے تھے اور وہ انہیں جیسے چاہے استعمال کرتا تھا اُسے مجبور ہوکر کہنا پڑا
غالب ثنائے خواجہ بہ یزداں گذشتیم۔۔کاں ذاتِ پاک مرتبہ داں محمدؐ اسآاردو کے اس عظیم شاعر نے حضور ؐ کی صفت و ثنا خود خدا پر چھوڑ دی اور کہا کہ کہاں آپؐ جیسی بلند مربتہ ہستی اور کہاں غالب یعنی بقول پیر مہر علی شاہ ؒ
کتھے مہر علی کتھے تیری ثنا۔۔گستاخ اکھیاں کتھے جا اڑیاں
ایک غالب ہی کیا دنیا کی عظیم ہستیاں بھی بارگاہ رسالت کے سامنے سر تسلیم خم کرنے پر مجبور ہیں۔ فیض احمد فیض نے جنہیں یوں خراج عقیدت پیش کرنے کی سعادت حاصل کی
اے تو کہ بست ہر دِل محزوں سرائے تو۔۔اوردہ ام سرائے دِگر از برائے تو
خواجہ بہ تخت بندۂ تشویش مُلک و مال۔۔بر خاک رشکِ خسروِ دوراں گدائے تو
جس ذاتِ گرامی کی تعریف و توصیف خود رب کائنات انسانیت کے نام آخری پیغام میں خود کررہا ہو کہ بے شک آپ اخلاق کی بلندیوں پر فائیز ہیں اور ورفنا لک ذکرک اور یہاں تک کہ ولسوف یرضی ۔ مقام مصطفیﷺ کا اعلان کرنے کے ساتھ ساتھ حرمت اور تعظیم رسولؐ بھی صحابہ اکرامؓ جیسی عظیم ہستیوں کوبتا دی کہ حضور ؐ کی مجلس مں بیٹھ کر آپس میں سرگوشیاں نہ کرو اور نہ انہیں ایسے مخاطب کرو جیسے آپس میں ایک دوسرے کو کرتے ہو اور مزید یہ کہ آپؐ کی آواز پر اپنی آواز بلند نہ کرو وگرنہ تمھارے تمام اعمال ضائع ہوجائیں اور تمھیں خبر تک بھی نہ ہوگی۔ اسی لیے حضورؐ سے بے پناہ محبت کرنے والے دم بخود ہو کر کہہ اٹھتے ہیں کہ
ادب گاہست زیر آسماں از عرش نازک تر ۔نفس گم کرہ می آئید جنید و بایزید ایں جا
عارف کھڑی میاں محمد بخش ؒ بھی حضور ؐ کے نامِ نامی کی حرمت اور تعظیم کو کیا خوب بیان کیا ہے کہ
جے لکھ واری عطر گلابوں دھویے نت زباں ۔شان اوہناں دے لائق ناہیں کی کلمے دا کاناں
اس قدر بے پناہ عقیدت و محبت کیوں نہ ہوجب خود خدا نے فرمادیا کہ میری محبت چاہتے تو میرے حبیبؐ کی پیروی کرو۔ اور پھر آپؐ کی ذات وجہ تخلیق کائنات ہے حضرت مجدد الف ثانیؒ اپنے مکتوبات میں لکھتے ہیں کہ میں خدا کو اس لیے خدا مانا ہے کہ اس کی خبر مجھے رسول پاکؐ نے دی ہے۔ کیا خوب کہہ گئے مولانا ظفر علی خانؒ کہ
گر ارض و سما کی محفل میں لولاک لما کا شور نہ ہو ۔یہ رنگ نہ ہو گلزاروں میں یہ نور نہ سیاروں میں
اسی حقیقت کو غالب نے بہت خوب صورت انداز میں پیش کیا بلکہ قرآن کی آیت وما امیت اذ امیت ولکن اللہ رمی کی تفسیر یوں کی کہ
تیرقضا ہر آئینہ در ترکشِ حق است ۔لیکن کشود آں از کمان محمدؐ است
خدا کے تیر بھی اُسی وقت ٹھیک نشانے پر جا کر لگتے ہیں جب وہ محمدؐ کی کمان سے نکلتے ہیں۔یہ وہی سماں ہے کہ بدر میں تلواریں تو حضورؐ اور آپؐ کے صحابہ اکرامؓ چلا رہے تھے لیکن خدا نے کہا کہ قتل ہم کررہے تھے۔ اُس عظیم ہستی کے دِن کو پوری دنیا کے انسانوں کو منانا چاہیے اور اِسے صرف مسلمانوں تک محدود کرنا مناسب نہیں کیونکہ وہ بلا شبہ محسن انسانیت ہیں۔ انہوں نے اعلان کیاکہ رنگ و نسل اور زبان و ملک کی کوئی تخصیص نہیں اور تمامبنی نوع آدم محض انسان ہونے کے ناطے قابل عزت ہیں۔ انہوں نے انسان کو اس کے اصل مقام سے روشناس کراتے ہوئے اُسے شرف عظمت بخشا اور حقوق انسانی کا درس دیا۔ انہوں نے اعلان کردیا کہ رنگ و نسل اور ذات پات کے تمام بُت پاش پاش کردیے گئے ہیں ۔ کوئی انسان کسی دوسرے کوانسان پر اپنا حکم نہیں چلا سکتا۔ حاکمیت صرف خدا کی ہے جو اُس کی کتاب کے ذریعہ ہے اور یہی انہوں نے قیامت تک آنے والوں کے لیے رہنما ئی کے لیے چھوڑی جس کا واضع اعلان اپنے آخری خطبہ میں بھی کیا۔آپؐ کی بدولت انسانیت کو قرآن ملا جس کے ملنے پر سورہ یونس میں جشن مسرت منانے کا حکم ہے جس کی پیروی میں ربیع الاول میں صاحب قرآن کی آمد پر اور رمضان میں لیلۃ القدر کے موقع پر جشن نزول قرآن منایا جاتا ہے کیونکہ قرآن کو صاحب قرآن سے الگ کیا ہی نہیں جاسکتا۔اس حقیقت کی وضاحت حضرت عائشہؓ نے آپؐ کو مجسم قرآن کہہ کر کی۔ آپ ؐ نے مروجہ نظریات میں جکڑے ہوئے انسانوں کو سوچنے سمجھنے اور غوروفکر کا پیغام دیا جس کی بدولت انسان آج ترقی کی منازل طے کررہا ہے۔ آپ کے اُس نقلاب کا پوری دنیا نے اعتراف کیا ہے اور دنیا کے بڑے بڑے مفکرین نے آپ کو اس پر خراج عقیدت پیش کیا ہے ۔ اس طویل فہرست میں لارڈمائن، مائیکل ایچ ہارٹ، لیونرڈ کارلائل، براؤن، سٹیفن سن، سمتھ، سر ولیم میور، سپالڈنگ، ریمنڈلبروگ، ڈاکٹر راؤڈن، گِبن، سر رچرڈ گریگوری، برناڈ شاہ، گائٹے، برگساں، کیتھلین بلس، لیمیرٹے، ہملٹن گب، جوزف سیہیچ، آرتھر گیلمین، ون کریمر، بوڈلے، رابرٹ گولیک، جوزف نونان اور ایک طویل فہرست ہے کہ کالم کی تنگ دامنی حائل ہے اوروہ سب تسلیم کرنے پر مجبور ہیں کہ
خود نہ تھے جو راہ پر اوروں کے ہادی بن گئے ۔۔وہ کیا نظر تھی جس نے مردوں کو مسیحا کردیا
حضورؐ نے جو انقلاب بھرپا کیا تھا دنیا اُسے جان چکی ہے لیکن ہمیں اُس کی روح کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ہماری درسی کتب میں پڑھایا جاتا ہے کہ جب حضورؐ نے اسلام کا پیغام دیا تو اہل مکہ آپؐ کے دشمن ہوگئے آپؐ اُن کے بتوں کی مخالفت کرتے تھے۔بات بتوں کی دشمنی کی نہ تھی اور وہ نہ اس وجہ سے آپؐ کے جانی دشمن تھے بات کچھ اور تھی۔ اگر بتوں کی وجہ ہی ہوتی تو جب آپؐ مکہ سے ہجرت کرکے سینکڑوں میل دور مدینہ چلے گئے تھے تو اہل مکہ کو اطمینان ہوجانا چاہیے تھا کہ اُن کے بتوں کو بُرا بھلا کہنے والا اب تو بہت دور چلا گیا ہے اور معاملہ ختم ہوجانا چاہیے تھا مگر انہوں پیچھا نہ چھوڑا اور بدر، احد اور خندق کے موقع پر خود لڑنے کے لیے آئے۔ کیوں کہ اہل مکہ جانتے تھے کہ اگر یہ انقلاب مدینہ میں کامیاب ہوگیا تو کل کو پورے عرب کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا اور ہماری بالادستی اور انسانوں پر حاکمیت ختم ہوجائے گی۔ اس حقیقت کو علامہ اقبال نے نوحہ ابوجہل کے عنوان سے یوں بیان کیا ہے کہ ابوجہل غلاف کعبہ پکڑ کر دہائی دے رہا ہے کہ
سینہ ما از محمدؐ داغ داغ ۔ز دمِ او کعبہ را گل شد چراغ
وہ ہبل، لات اور منات کو رو رو کر فریاد کررہا تھا کہ محمدؐ نے میرے سینہ میں آگ لگا دی ہے کہ اُس کی وجہ ہماری بالادستی ختم ہورہی ہے ۔ کبھی ابو جہل حجر اسود کے پاس جاتا ہے اور کہتا ہے کہ میں کیسے مان لوں کہ فارس سے آنے والا سلمانؓ میرا بھائی ہے اور میں کس طرح حبشہ کے بلالؓ کو اپنے ساتھ سترخوان پر بٹھا سکتا ہوں ۔ یہ وہ اصل جہ تھی جس کی بدولت ابوجہل اور اہل مکہ نے آپ کی نہ صرف شدت سے مخالفت کی بلکہ آپ پر گجنگیں بھی مسلط کردیں۔ لیکن نورخدا اپنے مشن پر کاربند رہا اور دنیا نے اُس انقلاب کا ظہور دیکھ لیا۔ اب ہمارا فرض ہے اور دور حاضر کا تقاضا ہے کہ ہم اس عید میلاد النبیؐ کے موقع پر ہم عہد کریں کہ محبت رسولؐ کا ثبوت اپنے کردار سے دیں اورابو جہلی ذہنیت کو ختم کرتے ہوئے قرآن حکیم کو مشعل راہ بنا کر زندگی کے ہر شعبہ میں اس سے رہنمائی لیں۔ جہاں تک آپؐ کی ذات ہے ہم کبھی بھی تعریف وتوصیف کا حق نہیں کرسکتے ۔
زندگیاں ختم ہوئیں اور قلم ٹوٹ گئے ! ۔۔تیری تعریف کا ایک باب بھی پورا نہ ہوا
کیونکہ
میرا پیمبر عظیم تر ہے۔۔شعور لایا کتاب لایا۔۔وہ حشر تک کا نصاب لایا
بشر نہیں، عظمت بشر ہے۔۔میرا پیمبر عظیم تر ہے۔۔میرا پیمبر عظیم تر ہے