فلسطین، شمالی قبرص اور کشمیر
بین الاقوامی قانون کے مطابق ان پاس زمین ہے، حکومت ہے اور عوام ہیں اس لیے ہم فلسطین کی ریاست کو ایک ملک کی حیثیت سے تسلیم کررہے ہیں۔ یہ تاریخی اعلان کرتے ہوئے سویڈش وزیرخارجہ مارگوت والستروم نے یورپی یونین اور دنیا کے دیگر ممالک کے لیے ایک روشن اور قابل تقلید مثال قائم کی کہ ہر قوم کی آزادی اور حق خود آرادی کو تسلیم کرنا ہی پڑے گا ۔ حقوق انسانی ، مساوات اور آزادی رائے پر یقین رکھنے والی اقوام کو اس میں پہل کرنا ہوگی۔جب سویڈش وزیر خارجہ سے امریکہ کی جانب سے تنقید کے بعد یہ سوال کیا گیا کہ کیا یہ قبل از وقت قدم نہیں ہے تو انہوں نے کہا بالکل نہیں بلکہ پہلے ہی بہت دیر ہوچکی ہے۔ دنیا بھر میں آزادی اور اپنے حق خود آرادی کی جدوجہد میں مصروف اقوام کوسویڈن کے اس فیصلہ سے ایک حوصلہ افزا پیغام ملا کہ کسی قوم کے بھی پیدائشی حق کو زیادہ دیر تر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ترک جمہوریہ شمالی قبرص (T.R.N.O.) جو شمالی قبرص کے نام سے جانی جاتی ہے اور اس رقبہ صرف 3,355مربع کلومیٹر ہے اور آبادی تین لاکھ کے قریب ہے مگر یہ ایک خودمختار ملک کی حیثیت سے5۱ نومبر1983ء سے دنیا کے نقشہ پر موجود ہے اگرچہ ابتدا میں اسے صرف ترکی نے تسلیم کیا ہوا ہے لیکن اب اس کے سفارت خانے پاکستان اور کرغزستان میں موجود ہیں اور علی سانتل پاکستان میں اس کے سفیر ہیں۔شمالی قبرص کے صدر درویش اریگلو او ر وزیراعظم اوذکان ہیں۔
برصغیر میں انگریزوں کے انخلا کے وقت ریاست جموں کشمیر کا رقبہ222236مربع کلومیٹر تھا جس میں بھارتی مقبوضہ کشمیر، آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کے علاقے شامل تھے یہ رقبہ یورپی ملک رومانیہ کے برابر ہے۔ 1947ء میں ایک لاکھ چھتیس ہزار مربع کلومیٹر سے زائد علاقہ بھارت کے قبضہ میں چلا گیا جبکہ تقریباََ بہترہزار مربع کلومیٹر کا علااقہ گلگت بلتستان اور تیرہ ہزار مربع کلومیٹر سے زائد خطہ آزاد جموں کشمیر کے نام سے موسوم ہوا اور طے یہ پایا کہ یہ آزاد خطہ آززادی کا بیس کیمپ بنے گا۔ اگر صرف آزادجموں کشمیر کو ہی لیں تو جس بین الاقوامی قانون کے تحت سویڈن نے فلسطین کو تسلیم کیا ہے بالکل اسی قانون کے تحت آزادجموں کشمیر میں ایک حکومت ہے ، پینتالیس لاکھ سے زائد عوام ہیںیہ آبادی اقوام متحدہ کے123 رکن ممالک سے زائد ہے، خطہ زمین ہے جو اقوام متحدہ کے مطابق کسی اور ملک کا حصہ نہیں بلکہ اس کے مالک خود اہل کشمیر ہیں اور اقوام متحدہ کے68 رکن ممالک اس سے کم رقبہ کے حامل ہیں۔ آئین ہے، اپنا پرچم ہے، سپریم کورٹ ہے تو پھر اسے کیوں نہیں تسلیم کیا جاتا۔شمالی قبرص کا رقبہ اور آبادی آزادجموں کشمیر سے کہیں کم ہے مگر اس کی حیثیت ایک ملک کی ہے اور پاکستان نے خود اسے تسلیم کیا ہوا ہے۔
اکتوبر 1947ء میں آزادجموں کشمیر کی ریاست کے قیام کے بعد اسے جہدوجہد آزادی کا بیس کیمپ بنانا مقصود تھا لیکن یہ فعال کردار ادا نہ کر سکا اور بین الاقوامی طور پر کشمیر مسئلہ فلسطین کی طرح توجہ نہ لے سکا ۔ 1961ء میں آزادجموں کشمیر کے صدر کے ایچ خورشید بنے جو کہ قائد اعظم محمد علی جناح کے پرسنل سیکریٹری بھی رہے تھے۔ یہ قائد اعظم کی تربیت اور صحبت تھی کہ کے ایچ خورشید نے یہ جان لیا کہ بین الاقوامی طور پر مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے اور اس کے حل کے لیے ضروری ہے کہ کشمیری خود اپنی بات کریں جیسے فلسطینی کرتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے آزادکشمیر کی ریاست کو تسلیم کرنے کا نظریہ پیش کیا جسے بہت پذیرائی ملی اور وہ جلد ہی کشمیری عوام کا پسندیدہ نظریہ بن گیا ۔ اُس وقت پاکستان میں جنرل ایوب خان کی حکومت تھی۔ بھارتی مقبوضہ کشمیر کے رہنماء شیخ عبداللہ اسی دور میں مذاکرات کے لیے وہاں سے آئے مگر اچانک نہرو کی وفات کے باعث انہیں واپس جانا پڑا اور پھر تاریخ کا دھارا کسی اور رخ مڑ گیا۔ صدر ایوب نے کے ایچ خورشید کی حکومت جبراََ ختم کرکے انہیں دلائی کیمپ کا پہلا اسیر بنادیا ۔ آپریشن جبرالٹر اور پاک بھارت جنگ ستمبر 1965ء کے بعد حالات بالکل بدل گئے لیکن کے ایچ خورشید اپنے نظریہ کی تشہیر کرتے رہے یہاں تک کہ وہ 1986ء میں زمبابوے کے دارلحکومت ہرارہ میں ہونے والی آٹھویں سربراہی کانفرس میں مبصر کی حیثیت سے شریک ہوئے اور عالمی رہنماؤں کو مسئلہ کشمیر سے روشناس کرواتے ہوئے انہیں آزادجموں کشمیر کو تسلیم کرنے کی درخواست کی۔ اس مقصد کے کے لیے انہوں نے عالمی رہنماؤں میں ایک میمورینڈم بھی تقسیم کیا۔ اس کانفرس میں پاکستان کی نمائندگی صدرجنرل ضیاء الحق کررہے تھے۔ کے ایچ خورشید کا کہنا تھا کہ کانفرس میں شریک بیس سے زائد ممالک کے سربراہوں نے انہیں یقین دلایا تھا کہ اگر پاکستان پہل کرے اور کشمیر کو تسلیم کرے تو وہ بھی اس کے لیے تیار ہوں گے۔
پاکستان کی قیادت ، اس کے پالیسی سازوں، وزارت خارجہ کے اعلیٰ حکام اور آزادکشمیر کے رہنماؤں کو اس حقیقت کا ادراک کرلینا چاہیے کہ مسئلہ کشمیر کے حل اور اسے بین الاقوامی سطح پر اجاگر کرنے کے لیے یہی قابل عمل راستہ ہے اور اسے ہی اپنانا ہوگا۔ بین الاقوامی دنیا بھی اسی وقت بات سنتی ہے جب کشمیری خود کرتے ہیں اور کشمیر کمیٹی سویڈن کے جنرل سیکریٹری کی حیثیت سے راقم کوامر کا ذاتی تجربہ ہے جس کا ادراک نجی محافل میں پاکستانی اور کشمیری رہنماء بھی کرتے ہیں۔ جلسے جلوس اور بیانات مسئلہ کو صرف ایک حد تک اجاگر کرتے ہیں لیکن اس کا اثرصرف کشمیری اور پاکستانی عوام تک محدود رہتا ہے مگر عالمی رائے عامہ پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا اور نہ ہی دنیا کا میڈیا اسے کوئی اہمیت دیتا ہے۔ سفارت کاری، حکمت عملی اور بین الاقوامی قانون کا راستہ اپنا کر کشمیری بھی اپنی منزل پاسکتے ہیں اور انہیں فلسطین و شمالی قبرص کی مثال پیش نظر رکھنا ہوگی۔ جس طرح ترکی نے شمالی قبرص کو تسلیم کیا ہے پاکستانی حکومت کوبھی ایسے ہی کشمیر کو تسلیم کرنا چاہیے ۔ یہی راستہ مسئلہ کشمیر کے حل کی جانب گامزن ہوسکتا ہے۔