انسانی جسم میں سور کے اعضا کی پیوند کاری
کیاا ب جسم انسانی میں خنزیر کے اعضا لگائے جائیں گے؟ کیا اب انسان کے سینے میں سور دل کا دھڑکے گا؟ اس سے پہلے کہ اسے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف مغرب کی سازش قرار دیا جائے ، حقائق جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس کی ضرورت کیوں پیش آسکتی ہے۔ اسلامی دنیا کے اہل علم جسم انسانی میں ا عضا کی پیوندکاری کو جائیز سمجھتے ہیں چاہے یہ زندہ انسان سے عطیہ ہوں یا مردہ سے۔بہت سی بیماریوں اور جسم انسانی کے بعض اعضا کی خرابیوں کو دور کرنے کے لئے خو ن اور خلیوں کا عطیہ اور اعضا کی پیوندکاری اب عام سی بات ہے لیکن چونکا دینے والی بات یہ ہے کہ کیا ہمیں اب سور کے خلیوں اور اعضا کا مرہون منت ہونا پڑے گا۔ سور جسے نجس اور حرام ہی نہیں بلکہ روایتی طور پر کچھ لوگ تو اس کا نام لینا بھی نجاست کے مترادف سمجھتے ہیں حالانکہ خنزیر کا ذکر تو قرآن حکیم میں چار مرتبہ موجود ہے۔جہاں تک حرام ہونے کا تعلق ہے قرآن نے مردار، خون، غیر اللہ کے نام پر ذبیحہ اور سور کو ایک ہی قسم میں شمار کیا ہے۔ا سلام اور یہودیت میں سور کا گوشت حرام ہے بلکہ عیسائیت میں بھی ایسا ہی ہے اورمذہبی عیسائی اس حرام ہی گردانتے ہیں۔ اگرچہ مغربی معاشرے میں سور کا گوشت عام کھایا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود اسے گندہ جانور سمجھا جاتا ہے کسی کو برا بھلا اور گندا کہنا ہو تو اسے سور سے تشبیہ دیتے ہیں۔ سویڈش زبان میں تو ایسا ایک محاورہ بھی ہے۔قرآن حکیم نے بھی اسے آلائشوں سے پاک نہ ہونا بتایا ہے۔
انسانی بیماریوں کے علاج کے لئے ادویات میں شامل اہم عناصر جانوروں سے لیے جاتے ہیں۔ جسم انسانی میں سور کے اعضا کی پیوندکاری کی ضرورت اس لیے پیش آرہی ہے کہ ضرورت مند بہت زیادہ ہیں لیکن عطیہ ملنے کی صورتیں بہت محدود ہیں اس لیے طبی ماہرین نے اس کا متبادل سوچنا شروع کیا۔انسانی جسم میں جانوروں کے اعضا کی پیوند کاری کو سائنسی زبان میں زینتھو ٹرانسپلانٹ کہتے ہیں۔ حیاتیاتی اعتبار سے سور کے بہت سے افعال جس میں نظام انہضام بھی شامل ہے جسم انسانی کے قریب ترین ہیں۔ سور کا دل، گردے، جگر ، پھیپھڑے اور آنکھ کی پتلی اپنی ساخت، جسامت اور کاردگی کے اعتبار سے انسانی جسم سے بہت مماثلت رکھتے ہیں۔
ان کے علاوہ آنتیں، جلد اور ہڈیوں کے گودے کو بھی پیوند کاری کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے جبکہ کسی اور جانور کے اعضا ایسی مناسبت نہیں رکھتے۔ اس کے علاوہ سور کے لبلبہ کے خلیے جسم انسانی میں داخل کرکے قدرتی انسولین پیدا کی جاسکتی ہے اور اس طرح ذیابیطس کے مریض مستقل صحت مند ہوسکتے ہیں اور انہیں ادویات کی ضرورت نہیں رہی گی۔ فالج، رعشہ، اعصابی اور عضلات کی بیماریوں میں مبتلا مریضوں کے لیے امید کی کرن واضح نظر آرہی ہے۔
جن ہسپتالوں میں ایسی پیوندکاری کی جائے گی ان کے ساتھ سوروں کا ایک فارم بھی قائم کیا جائے جو فیکٹری کی صورت میں کام کرے گا۔ لیکن یہ سب اس قدر آسان نہیں اس میں بہت سی پیچیدگیاں اور مشکل مراحل بھی ہیں جن کا خیال رکھنا لازمی امر ہے۔ سب سے بڑی مشکل یہ ہے سور کے گوشت میں موجود وائرس ہیں۔ یہ انسانی صحت کے لئے خطرناک ہیں اور اعضا کی پیوند کاری سے قبل انہیں ان سے پاک کرنا بہت ضروری ہے اور اس کے لئے ایک طریقہ کار سائنسدانوں نے وضع کرلیا ہے۔ ممکن ہے قرآن حکیم نے سور کو گوشت کو حرام اسی لئے قرار دیا ہے اور ایسے وائرس کی موجودگی کی وجہ سے آلائشوں سے پاک نہ ہونا بتایا ہے (سورہ الاانعام 145)۔ یہاں اس طبی تحقیق کا ذکر کرنا بھی مناسب ہوگا کہ جن ممالک میں سور کا گوشت زیادہ کھایا جاتا ہے وہاں قولون (آنتوں) کے سرطان کی شرح بہت زیادہ ہے اور جن ممالک میں خنزیر کا گوشت نہیں کھایا جاتا وہاں یہ سرطان بہت ہی کم ہے۔ وائرس سے پاک سور کے اعضا حاصل کرنے کے لئے جنیٹک انجنئیرنگ کو بروے کار لایا جارہا ہے اور حال ہی دریافت ہونے والی ایک تکنیک CRISPR Casکو استعمال کرتے ہوئے سور کے بیضہ میں ڈی این اے اور آراین اے کو تبدیل کرکے ایسے سور پیدا کئے جائیں گے جو مضر وائرس سے پاک ہوں گیاور ان کے اعضا جسم انسانی میں پیوند کاری کے لئے استعمال کئے جا سکیں گے۔
سور کے اعضا کی جسم انسانی میں پیوند کاری کے سلسلہ میں ایک اور مشکل انسانی جسم کا مدافعاتی نظام ہے جو کسی دوسرے عضو یا خلیوں کو قبول نہیں کرتا۔ سور کے جسم میں ایک مخصوص جین کے جوڑے کی موجودگی یہ مشکل پیدا کرتی ہے۔
اس مشکل سے نجات بھی جیناتی انجنئیرنگ نے دلائی ہے اور ان جین کو ناکارہ بنا کرسور کے ایسے بچے پیدا کئے جاسکتے ہیں جن کے خلیے اور اعضا آسانی سے انسانی جسم میں منتقل کئے جاسکیں گے۔ پیوند کاری کے یہ تجربات پہلے بندروں پر کئے جائیں گے اور کامیابی کی صورت میں انسانوں کے لئے مروج ہوں گے۔ سویڈن اور دنیا کے کئی ایک ممالک میں اس تحقیق پر کام جاری ہے۔ طبی ضروریات اپنی جگہ لیکن یہ بہت حساس معاملہ ہے اور اس بارے میں اخلاقی اور مذہبی سوالات ضرور اٹھیں گے۔ یورپ میں بھی اس بارے اخلاقی اور سماجی سوالات مو جود ہیں ۔ہمارے ہاں توکسی شخص کو گالی دینی ہو اور بہت برا کہنا ہو تو اسی سور سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ ہمارے ایک بزرگ تھے جو کسی بہت برے شخص کے بارے میں کہتے تھے کہ اس کی آنکھ میں سور کا بال ہے لیکن تب کیا ہوگا جب کسی کے سینے میں سور کا دل دھڑک رہا ہوگا۔خیر یہ تو از راہ مذاق ہے لیکن سنجیدہ بات یہ ہے کہ اسلامی دنیا میں اسے قبول کرنا آسان نہیں ہوگا۔مذہبی طبقہ کی جانب سے اس کی اسی طرح مخالفت آئے گی جیسے خون اور اعضا کے عطیہ کا معاملے میں آئی تھی اور بہت مخالفت کی گئی تھی یہ الگ بات ہے کہ اب آنکھوں، گردوں، جگر اور کئی دوسرے ا عضا کی پیوند کاری اور خون کے عطیہ کے عطیہ کی نہ صرف مخالفت ختم ہوگئی ہے بلکہ سب اس سے مستفید ہورہے ہیں ۔شریعت اسلامی جان بچانے کے لئے حرام چیزکھانے بھی اجازت دیتی ہے اور جب کسی انسان کی زندگی بچانے کے لئے عضو کی پیوند کاری ہی آخری حل رہ جائے تو پھر اس کی اجازت ہوسکتی ہے۔ جب کسی کے پیارے کی زندگی کا چراغ گل ہورہا ہو اور آخری چارہ یہی رہ جائے تو پھر مجبوری کی صورت میں یہی راستہ اختیار کیا جاسکتا ہے کیونکہ ہر کوئی اپنے پیارے کو موت سے منہ سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔