نزول قرآن او رخطابات اقبال
رمضان نزول قرآن کا مہینہ ہے جس کی وضاحت سورہ بقرہ میں کردی ہے۔سورہ القدر میں اس کی پوری تفصیل بیان کردی کہ ہم نے اس قرآن کو اْس وقت جبکہ ساری دنیا وحی کی روشنی سے محروم ہو کرتاریکی میں ڈٖوب چکی تھی،نئی اقدار اور قوانین کے ساتھ نازل کیا۔ جس رات میں اس کے نزول کا آغاز ہوا‘ وہ ایک جہانِ نو کے نمودار کی رات تھی۔قرآن کو بھیجنے والے رب سے بڑھ کر او رکون بتا سکتا ہے کہ یہ نئی اقدار اور نئے پیمانوں کی شب جس میں یہ نازل ہوا ہے وہ کس قدر با عظمت ہے۔اس رات کی عظمت بتا رہی ہے کہ رفتہ رفتہ قانونِ خداوندی کے مطابق انسان فطرت کی قوتوں کو مسخر کرتاجائے گا‘ اور وحی خداوندی کی روشنی میں زندگی کے ہر گوشے میں امن وسلامتی کی فضا عام ہوتی جائے گی۔یہ لوح محفوظ سے آسمان دنیا یا بیت العزت پر قرآن کے نزول کا ذکر ہے جہاں سے تئیس سال میں 610 ء سے ء 623ء تک قلب نبوی پر نازل ہوتا رہا پھر سورہ مائدہ کی تیسری آیت نازل ہوئی کہ آج دین مکمل ہوگیا ہے۔ اس کتاب عظیم کے نازل کرنے کا مقصد سورہ ابراہیم میں بتایا کہ یہ کتاب جسے ہم نے آپ کی طرف اتارا ہے تاکہ اس سے آپ لوگوں کو تاریکیوں سے نکال کرنور کی جانب لے آئیں اور ان کے رب کے حکم سے اس کی راہ کی طرف جو غلبہ والا سب خوبیوں والا ہے۔خدا نے قرآن کیوں بھیجا اس کا جواب بھی خود بھیجنے والے نے سورہ الدخان میں یوں دیا ہے کہ یہ کتاب مبین ہے جس میں واضح ضابطہ حیات اپنی صداقت پر آپ شاہد ہے۔اس کا آغازِ نزول ایک ایسی رات میں ہواجو ساری دنیا کے لئے صد ہزار برکات وسعادت ہے۔یہ ہمارے اْسی سلسلہ کے مطابق نازل ہوئی جس کی رْو سے ہم روز اول سے انسانوں کو ان کی غلط رَوش کے نتائج سے آگاہ کرتے چلے آرہے ہیں اور اب یہ اسی سلسلہ شدوہدایت کی آخری کڑی ہے۔ سورہ الاسراء میں بھی نزول قرآن کا مقصد بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اور ہم قرآن میں وہ چیز نازل فرما رہے ہیں جو ایمان والوں کے لئے شفاء اور رحمت ہے اور ظالموں کے لئے تو صرف نقصان ہی بڑھتا ہے۔ اس قدر عظیم ضابطہ قوانین اور ہدایت ملنا کوئی معمولی بات نہیں جس بارے میں سورہ یونس میں فرمایا کہ یہ وہی قانون ہے جو اب اے نوعِ انسان! تمہارے رب کی طرف سے ایک ضابطہ ہدایت کی شکل میں تمہارے پاس آگیا ہے۔اس میں ہر اس کشمکش کا علاج ہے جو تمہارے دل کو وقف اضطراب رکھتی ہے۔ جو اہل ایمان کے لیے رحمت ہے۔ ان سے کہہ دیں کہ اس قسم کے ضابطہ ہدایت کا مل جانا خدا کے فضل ورحمت سے ہے۔ تم کسی قیمت پر بھی اسے حاصل نہیں کر سکتے تھے۔ لہٰذا تمہیں چاہئے کہ تم اس کے ملنے پر جشن ِمسرت مناؤ۔ یہ ہراس شے سے بہتر ہے جسے تم جمع کرتے رہتے ہو۔ یعنی زندگی کی ہر متاع سے زیادہ گراں بہا اور عزیز تر۔ رمضان کے اختتام پر عید الفطر دوسرے لفظوں میں نزول قرآن کی خوشی میں جشن مسرت ہے۔
حکیم الامت علامہ اقبال نے اپنے ادو اور فارسی کلام میں قرآن مجید کے پیغام کو بہت خوبصورتی سے پیش کیا ہے جس بارے میں اکثر لکھا جاتا ہے لیکن اپنے خطبات میں انہوں نے قرآن حکیم کی نابت جو کچھ لکھا ہے اس طرف عمومی طور پر کم توجہ دی جاتی ہے۔ معروف ماہر اقبالیات محمد شریف بقا نے اپنی کتاب موضوعات خطبات اقبال میں وہ اقتباسات پیش کیے ہیں جو علامہ نے قرآن کے بارے میں لکھے ہیں۔ علامہ فرماتے ہیں کہ قرآن ِحکیم وہ کتاب ہے جو تصور اور عقیدے سے زیادہ عمل پر زور دیتی ہے۔قرآن حکیم خدا تعالیٰ کا عطا کردہ مکمل ضابطہ حیات اور صحیفہ ہدایت ہے۔قرآن حکیم نے ہمارے اعمال سے پہلے ہمارے افکار،نظریات،احساسات،جذبات بلکہ خیالات کی اصلاح وتطہیر پر زور دیا ہے۔چونکہ ہمارے اعمال ہمارے افکار ہی کے غماز ہوتے ہیں اس لیے سب سے پہلے ان کی پاکیزگی ضروری ہے۔قرآن حکیم خدا تعالیٰ کو ہمارے ہر فعل میں ہمارا حاکم بنانے پر زور دیتا ہے تاکہ ہم لامحالہ ہر شعبہ حیات میں کی بلا شرط اطاعت اختیار کرسکیں۔جب خدا تعالیٰ کا تصور ہمارے دل ودماغ میں اچھی طرح جاگزیں ہوجائے گا تو ہم اپنی عملی زندگی میں اس کا ثبوت بہم پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔خدائی قوانین کی ابدی صداقت کا یقین اور اس کی ہمہ وقت اطاعت کا تصور ہی ہمارا عقیدہ اور ایمان ہوتا ہے۔ایسی حالت میں ہم بلا چون وچرا اس کو ہر کام میں اپنا حاکم خیال کرنے لگتے ہیں۔ ایمان، عقیدے، اور تصور کی پختگی کے بعد قرآن حکیم ہم سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ ہم اپنے عمل سے بھی اپنے قول کا ثبوت دیں۔ کسی بات کو محض عقلی طور پر ماننے کے بعد اس کے مطابق عمل نہ کرنا منافقت اور بزدلی کی علامت ہے۔علامہ تسخیر کائنات کے حوالے سے قرآن عظیم کا نقطہ نظر پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں “The Quran opens our eyes to the great fact of change, through the appreciation and control of which alone it is possible to build a durable civilization.”
اسلامی میں قرآن حکیم کی سپریم حیثیت بیان کرتے ہوئے وہ فرماتے ہیں کہ رسول کریمﷺ کے مبارک عہد سے لے کر عباسی حکمرانوں کے ابتدائی دور حکومت تک مسلمانوں کے پاس قرآن کے علاوہ اور کوئی ایسا آئینی ذریعہ نہیں تھا جو اس کی طرح مدوّن اور مرتب ہوتا۔جب مسلم حکومت کا دائرہ اثر وسیع ہوگیا اور نئے علاقوں کے رہنے والے حلقہ بگوش اسلام ہوئے یا ذمّی رعایا کی حیثیت سے مسلم مملکت میں زندگی گذارنے لگے تو باہمی میل جول نے نئے نئے مسائل کو جنم دیا۔ علامہ مزید فرماتے ہیں کہ قرآن حکیم محض عقائد وعبادات کا مجموعہ نہیں بلکہ اس میں حیاتِ اجتماعی کی ترقی وکامرانی کی بھی تعلیم ہے۔ اس لحاظ سے دین اور سیاست و آئین میں کوئی ثنویت نہیں۔ حضرت عمرؓ نے بجا فرمایا تھا:”حسبنا کتاْب اللہ“(ہمارے لیے اللہ کی کتاب کافی ہے)۔ اس نقطہ نگاہ سے قرآن حکیم ہی ہمارے قوانین کا اوّلین اور بنیادی سرچشمہ ہونا چاہیے۔امت مسلمہ آگ بھی اپنے مسائل کے گرداب سے نکل سکتی ہے اگر وہ روح عمر ؓ کے مطابق یہ طے کرلے کہ ہمارے لیے اللہ کی کتاب کافی ہے۔
Links where this column was published