لیڈر اور عوام دونوں جہنم میں
واہ کیسی بات کہی کہ اس میں تمہارا ذکر ہے۔ یہ خوبی صرف اس کتاب میں ہوسکتی ہے جسے خالق کائنات نے انسانیت کے لئے اپنی آخری کتاب قرار دیا ہے اور سورہ الانبیاء کی دسویں آیت میں صاف کہہ دیا ہے کہ اس میں تمہارے بارے میں بات کی گئی ہے اور تمہارا ہی ذکر ہے لیکن ہم ہیں کہ یہ سوچتے ہی نہیں بلکہ یہ کہتے ہیں نہیں یہ اقوام گذشتہ کے بارے میں کہا گیا ہے اور کچھ لوگ جو اس سے بھی آگے بڑھ جاتے ہیں ان کی ذہنیت کوسورہ النحل کی آیت چوبیس میں بیان کیا ہے اور کہا کہ جب اْن سے پوچھا جاتا ہے کہ تمہارے رب نے کیا نازل فرمایا ہے؟ تووہ کہتے ہیں کہ یہ اگلی قوموں کے من گھڑت واقعات ہیں۔ ان کے خیال میں یہ محض قصے کہانیاں ہیں ، اُن میں اور کیا رکھا ہے۔ یہ وہی لوگ ہیں جو وحی الہی کو سنجیدگی سے نہیں لیتے ہیں اور پھر مہلت کا وقت گذر جاتا ہے جسے سورہ الانبیاء کے ابتدا ء میں یوں بیان کیا ہے کہ لوگوں کے لئے ان کے حساب کا وقت قریب آپہنچا مگر وہ غفلت میں پڑے منہ پھیرے ہوئے ہیں۔ ان کے پاس ان کے رب کی جانب سے جب بھی کوئی نئی نصیحت آتی ہے تو وہ اسے یوں بے پرواہی سے سنتے ہیں گویا وہ کھیل کود میں لگے ہوئے ہیں۔ اس کا نیتجہ یہاں اور آخرت دونوں میں خسارے کا ہے۔ حیات آخرت کا نقشہ پیش کرتے ہوئے قرآن حکیم جہنم میں عوام اور اُن کے قائدین درمیان ہونے والی گفتگو اور بحث کو مختلف مقامات پریوں بیان کرتاہے۔ سورہ الصفات کی آیت 27 تا 34 میں ہے کہ اور وہ ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہوکر باہم سوال کریں گے۔عوام کہیں گے بے شک تم ہی تو ہمارے پاس اپنے حق پر ہونے کی قَسمیں کھاتے ہوئے آیا کرتے تھے۔. انہیں گمراہ کرنے والے پیشواکہیں گے کہ تم خود ہی ایمان لانے والے نہ تھے اور ہمارا تم پر کچھ زور اور دباؤ نہ تھا بلکہ تم خود سرکش لوگ تھے۔ پس ہم پر ہمارے رب کا فرمان ثابت ہوگیا۔اب ہم عذاب کا ذائقہ چکھنے والے ہیں۔ سو ہم نے تمہیں گمراہ کر دیا بے شک ہم خود گمراہ تھے۔ پس اس دن عذاب میں وہ سب باہم شریک ہوں گے۔ بے شک ہم مْجرموں کے ساتھ ایسا ہی کیا کرتے ہیں۔ سورہ سبا کی آیت ۳۲ اور ۳۳ میں اُن کے باہمی مکالمہ کو یوں بیان کیا ہے کہ لیڈر عوام سے کہیں گے کہ تم خواہ مخواہ کیوں باتیں بنا رہے ہو۔کیا ہم نے تمہیں ہدایت سے روکا اس کے بعد کہ وہ تمہارے پاس آچکی تھی، بلکہ تم خود ہی مْجرم تھے۔ پھرعوام اپنے لیڈروں سے کہیں گے کہ تمہارے رات دن کے مَکر، چال بازیوں اور فریب کاریوں ہی نے ہمیں روکا تھا جب تم اس قسم کے قوانین بناتے تھے جن سے ہم قوانین خداوندی کے انکار کے مرتکب ہوجاتے تھے اور ہم اللہ کے احکامات میں دوسروں کے احکامات کو شریک کرتے تھے۔ لیڈر اور عوام دونوں عذاب کو آتے ہوئے دیکھ کراپنی ندامت چھپائیں گے اور ہم انکار کرنے والوں کی گردنوں میں طوق ڈال دیں گے، اور انہیں اْن کے کیئے کا ہی بدلہ دیا جائے گا۔
قرآن حکیم سورہ ابراھیم کی آیت ۲۸ اور ۲۹ میں دعوت غوروفکر دیتے ہوئے کہتا ہے کہ اقوام عالم کی تاریخ پر نگاہ دوڑاتے ہوئے دیکھو کہ جن کو خدا نے زندگی کی خوشگواریاں عطا کی تھیں لیکن انہوں نے اس کی قدر نہ کی اور اپنی قوم کو تباہی اور بربادی کی جانب جھونک دیا جس کا نتیجہ دوزخ ہے جو بہت بُرا ٹھکانہ ہے۔ لیڈروں کے ستائے ہوئے عوام کی دہائی کو سورہ الاحزاب کی آیت 67 اور 68 میں کچھ اس طرح بیان کیا ہے کہ وہ اپنے رب سے کہیں گے کہ اے ہمارے رب! بیشک ہم نے اپنے سرداروں اور اپنے بڑوں کا کہا مانا تھا تو انہوں نے ہمیں سیدھی راہ سے بہکا دیا۔ اے ہمارے رب! انہیں دوگنا عذاب دے اور اْن پر بہت بڑی لعنت کر۔
64اسی صورت حال کو سورہ ص کی آیت 61 سے
میں بھی بیان کیا گیا ہے جب عوام عرض کریں گے کہ اے ہمارے رب چونکہ یہ ہمارے مصائب اور پریشانیوں کے ذمہ
دار ہیں اس لئے انہیں دو گنا عذاب دے۔ سورہ فصلت کی آیت ۲۹ کے مطابق عوام بارگاہ الہی میں عرض کریں گے کہ اے رب ہمیں وہ رہنماء دیکھا دے جنہوں نے ہمیں غلط راستے پر ڈال دیا تاکہ ہم انہیں اپنے پاؤں تلے کچل دیں۔ عوام اور لیڈروں کے آپس میں جھگڑنے کی ایک اور تصویر سورہ المومن کی آیت 47 اور 48 میں بڑے سبق آموز انداز پیش کی ہے جس کے مطابق اُس جہنم میں لوگ ایک دوسرے ساتھ جھگڑیں گے ۔ عوام اپنے لیڈروں سے کہیں گے کہ تم نے ہمیں اپنے پیچھے لگایا ہوا تھا اب ہم سے یہ عذاب دور کرو جس پر لیڈر کہیں گے کہ ہم سب اس عذاب میں مبتلا ہیں جو اہمارے اعمال کا نتیجہ ہے اور اس میں ردوبدل ممکن نہیں کیونکہ کہ خدا کا فیصلہ ہے۔ سورہ بقرہ کی آیت 166 اور 167 میں حسرت ناک انجام کی ذکرکرتے ہوئے قرآن حکیم کہتا ہے کہ یہ بات عوام کو اُس وقت سمجھ آئے گی جب اُن کے رہنماء اور پیشوا اں کا ساتھ چھوڑ جائیں گے اور وہ سوچیں گے کہ اے کاش وقت واپس لوٹ جائے اور ہم بھی اہنے ان لیڈروں اور پیشواٗوں سے آنکھیں پھیر لیں۔ لیڈر چونکہ عوام کو غلط راستے پر لے جانے کے ذمہ دار ہوتے ہیں اسی لئے سورہ النحل کی آیت ۲۵ میں واضع طور پر بتا دیا کہ لیڈروں اور پیشواٗوں کا ان عوام کے کچھ اعمال بھی بوجھ اٹھانا پڑے گا جنہیں انہوں نے گمراہ کیا تھا۔
قرآن حکیم بار بار ہمیں غور و فکر کی دعوت اس لئے دیتا ہے کہ ہم سوچیں اور اگر ہم مذکورہ بالا آیات پر تدبر کریں تو یہ حقیقت آشکار ہوجاتی ہے کہ یہ تو ہمارے بارے میں ہی بات کی گئی ہے۔ چشم تصور سے دیکھا جاسکتا ہے کہ ہمارے عوام اللہ تعالیٰ سے التجا کررہے ہوں کہ اے ہمارے رب ہمارے ان رہنما وٗں کو سخت اور دہرا عذاب دے جنہوں ہمیں غلط راستے پر چلایا ۔ ان رہنماوٗں میں وہ شامل ہیں جو کسی نہ طرح قائدانہ کردار ادا کررہے ہیں۔ جنہوں نے قوم کو لسانی، علاقائی، مذہبی، سیاسی اور رنگ و نسل کی بنیاد پر تقسیم کیا اور جنہیں اختیارات و اقتدار حاصل رہا۔ وہ بھی جو اپنا ضمیر فرخت کرکے غلط بیانی سے کام لیتے رہے اور حق کی آواز بلند نہ کی۔ اسی تصویر کے دوسرا رخ یہ بھی ہوگا کہ قائدین اور پیشوا عوام سے کہیں گے کہ تم خود ذمہ دار ہو اور تم نے خود ہمیں اپنے اوپر مسلط کیا تھا۔ اگر ہم اتنے ہی بُرے تھے تو تم نے بغاوت کیوں نہ کی۔ ووٹ ایک طرح کی گواہی ہوتاہے لیکن جب ہم غلط تھے تو ہمیں کیوں اپنا ووٹ دیتے تھے۔ اپنی ذاتی زندگی میں تم لوگ اپنا معمولی سا نقصان بھی براداشت نہیں کرتے تھے لیکن ملک و قوم کے معاملات کیوں غلط لوگوں کا ساتھ دیتے تھے۔ جب ہم نے تمہیں فرقوں اور پارٹیوں میں تقسیم کر رکھا تھا تم قرآن کی آواز کیوں نہ سنتے تھے کہ فرقہ واریت شرک ہے۔ یہ تم ہی تھے جو ہمارے جلسوں میں بھنگڑے ڈالتے اور نعرے لگاتے تھے، آوے ای آوے، ، سب سے بہتر، کون آیا، ہر بار اور معلوم نہیں ہمارے لئے کیا کیانعرے گلے پھاڑ کر لگاتے تھے۔ لہذا ہم پہ لزام نہ دو تم نے معمولی مفاد کی خاطر سچ کا ساتھ نہ دیا۔ کئی ایسے لیڈر بھی تھے حق اور سچ کی آواز بلند کرتے تھے اور باکردارتھے لیکن تم انہیں منتخب نہ کرتے تھے لیکن ہماری کرپشن، اقربا پروری اور بد اعمالیوں کے باوجود ہمیں اپنا لیڈر تسلیم کرتے تھے اوردنیا وی مفاد کی خاطر حیات آخرت کا سواد کیا اس لئے اب آؤ دونوں اس عذاب کا مزا چکھیں۔ یوں لگتا ہے کہ اس بحث کے بعد فرشتے ہانکتے ہوئے سب کو اس جہنم کی طرف لے جائیں گے جو بہت بُرا ٹھکانہ اور اُس روز کوئی اُن کے کام نہیں آئے گا۔ کاش ہم اس بارے میں سوچیں۔۔