عارف محمود کسانہ ’’ بچوں کی سبق آموزکہانیاں‘‘کے تناظر میں
عارف محمود کسانہ ’’ بچوں کی سبق آموزکہانیاں‘‘کے تناظر میں
محمدرکن الدین
ریسرچ اسکالر،ہندوستانی زبانوں کا مرکز
جواہرلعل نہرویونیورسٹی ،نئی دہلی
#arifkisana
ملکی اورسماجی فلاح وبہبودکے لیے کام کرنے والوں کی تاریخ آب زرسے لکھنے کے قابل ہے۔ملی اورقومی حمیت کے دلدادہ شخصیات نے بھی اپنی وسعت کے مطابق ہردورمیں عملی،علمی،قلمی اورفکری سطح پر امت مسلمہ کے لیے کام کیا ہے جس سے امت نے ہردورمیں بھرپوراستفادہ کیا ہے۔اس طویل فہرست کا ذکریہاں ممکن نہیں۔موجودہ وقت میں عارف کسانہ اسی ملی وقومی حمیت سے سرشارہوکر متعددسمت میں کارخیرانجام دے رہے ہیں۔جس کا مقصدظاہر ہے کہ امت مسلمہ کے ساتھ انسانیت کی فلاح وبہبودی ہے۔اسلام ایک آفاقی مذہب ہے۔اسلا م کا پیغام پوری انسانیت کے لیے یکساں ہے۔قرآن کریم میں متعددباراللہ پاک نے انسان سے خطاب فرمایاہے جس میں تمام نسل انسانی کا ذکرہے۔صرف ایمان والے اس خطاب میں شامل نہیں۔انہیں تعلیمات سے اپنے ذہن وفکرکومنورکرکے عارف محمود کسانہ موجودہ وقت میں پوری انسانیت اورخاص طورپر امت مسلمہ کے لیے کام کررہے ہیں۔دنیا کے کسی کونے میں انسانیت سسکتی ہے تو عارف کسانہ کا دل دردسے تڑپ اٹھتاہے کیوں کہ موصوف ایک حساس طبیعت کے مالک ہیں۔قبل ازیں میں نے اپنے مقالہ ’’ عارف محمود کسانہ افکار تازہ کے تناظر میں ‘‘ ذکرکیا تھا کہ عارف کسانہ کی زندگی جس طرح مختلف النوع ہے اسی طرح انہوں نے اپنی زندگی کوکئی سمتوں میں تقسیم کررکھا ہے۔اس مقالہ میں ان کی پیشہ روانہ زندگی ، علمی ادبی،صحافتی اور دینی سرگرمیوں کا تفصیل سے ذکر موجود ہے ۔موصوف ایک اچھے ادیب، کالم نگار، مقرر،مصنف اور مبلغ بھی ہیں۔ عارف کسانہ کی صحافتی سرگرمیاں شہرت وناموری کی محتاج نہیں ہے بلکہ تمام سرگرمیاں ایک مشن ہے۔قوم وملت کے ساتھ پوری دنیا کے لیے رضاکارانہ کام ہے۔اپنی قلمی کاوش کے عوض آج تک موصوف نے کسی سے کسی قسم کا کوئی بھی مالی معاوضہ نہیں لیا ہے۔ یہ تمام ترسرگرمیاں خدمت خلق کے لیے وقف ہے۔ ملی اورقومی حمیت کا غلبہ اس قدرحاوی ہے کہ اس قلمی جہاں میں جنون کے حد تک قومی خدمات انجام دیے جارہے ہیں۔جو یقینافکر اقبال کی روشنی میں افکار تازہ سے فیضیاب ہوکر جہان اورکائنات کے لیے ذہنی تازگی کا سامان مہیا کررہے ہیں۔اس تازگی اورقومی سرمایے میں عارف کسانہ کی بیش قیمتی خدمات آب زرسے لکھنے کے قابل ہیں۔
عارف محمود کسانہ کی ایک اور وجہ شہرت بچوں کے ادب کے حوالے سے ہے۔ دور حاظر میں بچوں کے ادب کے ادب کی طرف بہت کم توجہ دی جارہی ہے اور اردو میں تو بہت ہی کم بچوں کے لئے ادب تخلیق کیا جارہا ہے۔ بچوں کے لئے اسلامی معلومات پر مبنی ان کی کتاب ’’ سبق آموز کہانیاں ‘‘ کو حکومت پاکستان کے ایک سرکاری ادارہ نیشنل بک فاونڈیشن ،اسلام آبادنے شائع کیاہے۔سبق آموز کہانیاں کی مقبولیت میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے۔ سبق آموزکہانیاں کی مقبولیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن بھی شائع ہوچکا ہے اور دنیا کی متعدد زبانوں میں یہ کتاب شائع ہوچکی ہے ۔ اردو کے علاوہ انگریزی، نارویجین،عربی ،فارسی، ہندی ،جاپانی ، بنگلہ اور، فرانسیسی میں سبق آموز کہانیاں شائع ہوئی ہے۔جرمن، سویڈش، ڈینش، سندھی اور گوجری زبانوں میں تراجم اشاعت کے مراحل میں ہیں جبکہ جاپانی، ہسپانوی، اطالوی، چینی، روسی اور دیگر کئی زبانوں ترجمہ کا کام چل رہاہے،امید ہے کہ پوری دنیا کے قارئین اس اہم تصنیف سے استفادہ کریں گے۔انگریزی زبان میں سبق آموز کہانیاں کا ترجمہ
A Collection of Delightful Stories for Children:Based on Islami thought کے نام سے شائع ہواہے۔دور حاظر کے تقاضوں کے پیش نظر سبق آموز کہانیاں کی موبائل ایپلیکیشن بھی موجود ہے جس کے ذریعہ ہر قسم کے سمارٹ فون اور ٹیبلٹ میں یہ کتاب پڑھی جاسکتی ہے۔ اس موبائل ایپلیکیشن میں آٹھ زبانوں میں کہانیاں پڑھنے کی سہولت موجود ہے۔
اردومیں ادب اطفال کی طرف کم توجہ دی گئی ہے۔اردومیں لکھنے والوں کی تعدادمیں دن بدن اضافہ ہورہا ہے لیکن ادب اطفال پر کم توجہ دی جارہی ہے جو یقیناًقابل افسوس ہے۔انسان کی پہلی شکل و صورت اسی نونہالان کی ہوتی ہے جو بڑے ہوکر انسانیت کی بقائے باہمی میں اہم کردار اداکرتے ہیں۔لیکن اردوکے لکھاریوں نے ان کلیوں کو کیسے فراموش کردیا جن کے کھلنے سے کائنات کے چہرے مسکرااٹھتے ہیں اور وہ زیر لب تبسم نہ جانے کتنے بے قراروں کو قراربخشتا ہے۔تاہم چنداہم ادیب ودانشورنے اس سمت میں لکھنے کی کوشش کی ہے جن میں علامہ اقبال، صوفی تبسم، اسماعیل میرٹھی اورحالی وغیرہ قابل ذکرہیں۔ادب اطفال کی جانب سے بیگانگی والے رویے کا ذکرکرتے ہوئے پروفیسرمحمد شریف بقا لکھتے ہیں۔
''یہ امر باعث افسوس ہے کہ ہمارے اکثر اہل علم وادب نے ہماری نئی نسل خصوصا یورپ اورامریکہ وغیرہ میں مقیم بچوں اوربچیوں کے بارے میں بہت کم کتب تصنیف یا مرتب کی ہیں۔اگرہم چاہتے ہیں کہ ہماری نژادنوہماری ملی روایات اورتاریخ وعلم سے گہرا تعلق قائم رکھے تو پھر ہمیں اپنے نوجوان اورنئی نسل کو اپنے علمی وادبی ذخائر سے واقف رکھنا ہوگا۔یہ بات وجہ مسرت وانبساط ہے کہ محترم عارف کسانہ نے علمی انکشافات کی روشنی میں اسلامی تاریخ سے متعلق کہانیاں اورقرآنی تعلیمات پر مبنی مگر دلچسپ اندازمیں مضامین لکھے ہیں۔ان کی یہ کاوش یقیناًقابل ستائش اورلائق تقلید ہے۔''
عارف کسانہ کی کتاب اسلامی معلومات پر مبنی بچوں کے لیے دل چسپ اورانوکھی کہانیاں پوری دنیامیں قلیل مدت میں ایک انفرادی شناخت قائم کرچکی ہے۔عارف کسانہ کی یہ کتاب ادب اطفال میں اضافہ تو ہے ہی ساتھ ہی اسلامی افکار ونظریات کی ترویج واشاعت کے لیے اتنا مثبت اورکارآمد قدم ہے جس سے ہرکوئی استفادہ کررہا ہے۔
عارف کسانہ اس کتاب کا تعارف پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
''اس کتاب کا مقصد یہ ہے کہ بچے جو کہ مستقبل کے معمارہیں ان کی تعلیم وتربیت اس انداز سے کی جائے کہ وہ سچے مسلمان،اچھے انسان،محب وطن اورباوقارشہری بنیں۔ان کے ذہن میں کوئی الجھن نہ ہو۔وہ اپنے دل اوردماغ کے اطمینان کے ساتھ اپنے دین کی تعلیمات کو سمجھیں اوران پر عمل کرکے اپنی زندگی بسر کریں۔اس تناظر میں بچوں کے لیے لکھنے کی ضرورت ہے۔یہ کہانیاں اس انداز سے لکھی گئی ہیں کہ بچے انہیں دلچسپی سے پڑھیں۔ان کہانیوں میں مختلف ممالک اورشہروں کی بھی کچھ تفصیلات موجود ہے تاکہ بچوں کے علم میں اضافہ ہواوران میں آگے بڑھنے کا جذبہ بھی پیداہو۔''
عارف کسانہ کا کارنامہ اس لیے زیادہ مستحسن ہے کہ انہوں نے زبان وبیان،اخلاق وکردارکے ساتھ اسلامی تعلیمات ونظریات کے فروغ کے لیے ایک ایسا انوکھاطریقہ ڈھونڈنکالاجس سے پوراعالم استفادہ کررہا ہے۔ہر عمر کے لوگ یکساں مستفید ہورہے ہیں۔اردوکی نئی بستیوں میں بچوں کے لیے بہت کم لکھا گیا ہے یا یہ کہہ لیں کہ ان بستیوں میں ادب اطفال پر موجود مواد کو انگلیوں پر گنا جاسکتا ہے تو میرااندازہ بے جانہیں ہوگا۔دیارغیر میں اردوآبادیاں بڑی تعدادمیں نہ صرف قیام پذیر ہیں بلکہ مستقل سکونت اختیارکیے ہوئے ہیں۔چند افراداپنی تہذیبی وثقافتی روایات کی بحالی کے لیے اردوزبان اوراسلامی تعلیمات سے ان نونہالوں کی ذہنی وفکری تربیت کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔لیکن ان بستیوں میں ادب اطفال کی طرف زیادہ توجہ نہیں دیاجانااپنے آپ میں عجیب وغریب مسئلہ ہے۔کیوں کہ دیارغیر میں جہاں آئے دن کتنی تہذیبیں دم توڑتی ہوئی نظرآتی ہیں۔جس کاعلم ہرعام وخاص کو بخوبی ہوگا۔ وہاں بچوں کی خاص تعلیم وتربیت ایک اہم مسئلہ ہے کیوں کہ درس گاہوں کی تعلیم وتربیت اسلامی تعلیمات سے یکسر منفردہے۔دونوں تعلیم میں یکسانیت کا دوردورتک شائبہ نظرنہیں آتا۔بچے کا ذہن ظاہر ہے طفلانہ سوالات کے لیے ہمہ وقت آمادہ رہتے ہیں۔اس وجہ سے بچوں کی تعلیم وتربیت دیا رغیر میں ایک اہم مسئلہ ہے۔چناں چہ ان بچوں کے لیے تعلیم وتربیت کا اہتمام دانش مندانہ قدم اور اہم کارنامہ ہے۔عارف کسانہ کی خاص بات یہ ہے کہ جہاں انہیں اپنی تہذیب وتمدن پسند ہے وہیں اسلامی اقدارسے بھی بے حد لگاؤہے۔اس کتا ب میں سوالات وجوابات کی نوعیت ان ہی خطوط کے اردگردگردش کررہے ہیں۔انہیں اپنے شاندارماضی سے بھرپورواقفیت ہے۔قوم وملت کا درد قلبِ عارف کو سکون واطمینان فراہم نہیں کررہاہے۔کسی سماج کی فلاح وبہبود اورترقی کے لیے بچے بہت اہم ہوتے ہیں۔سماجی ترقی کا دارومدار مستقبل کی نسلیں ہی طے کرتی ہیں۔بچوں کے لیے محنت ،تعلیم وتربیت کا انتظام وانصرام،گائیڈلائن گویا ایک صدی کی تربیت ہے۔انہیں خیالات کا عملی جامہ سبق آموزکہانیاں ہیں۔جس میں بچوں کے لیے اسلامی نقطہ نظرسے تربیت دینے کی کوشش جاری ہے۔اردوکی نئی بستیوں میں یہ کام ایک انقلاب سے کم نہیں ہے۔
سبق آموزکہانیاں میں کل سولہ۱۶کہانیاں شامل ہیں۔ان کہانیوں کے عناوین کچھ اس طرح ہیں۔"ہم مسلمان کیوں ہیں؟،ایمان کسے کہتے ہیں؟،اللہ اورانسانوں کے قانون میں فرق،اسلام کسے کہتے ہیں اورکن چیزوں پر ایمان ضروری ہے!،نبی اوررسول کسے کہتے ہیں؟،ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم،صرف اسلام ہی سچا دین کیوں ہے؟،ہماری دعائیں کیوں قبول نہیں ہوتی ؟،کن باتوں سے اللہ نے منع کیا ہے؟،بول چال کے آداب،سب مسلمان برابر ہیں،غیرمسلموں سے سلوک،اللہ تعالی ہمیں نظرکیوں نہیں آتا؟،اللہ تعالی کے بارے میں قرآن مجید کا بیان،مومن کسے کہتے ہیں؟،ایک مثالی شخصیت!"۔عناوین کا انتخاب اپنے آپ میں بہت دل چسپ ہے۔مذہبی،دینی،سماجی،اصلاحی اورتربیتی عناوین کے اردگرد تمام مضامین گردش کررہے ہیں۔ عارف کسانہ بچوں کومخاطب کرتے ہیں ، پھر سوال وجواب کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔قائم کردہ سوالات کا انداز اتنا آسان اورعام فہم ہوتا ہے کہ ہرکوئی دل چسپی سے پڑھے بغیر رہ ہی نہیں سکتا۔زبان وبیان میں شفافیت وشائستگی ایسی کہ جیسے زبان آب زمزم سے دھولی گئی ہو،بیانیہ اس قدردل چسپ کہ بار بارپڑھنے پردل آمادہ کرے۔عناوین کے انتخاب میں جدت وندرت کا اتنا خیال رکھا گیا ہے کہ تربیتی طریقہ کار میں کوئی پہلوکسی بھی طرح تشنگی محسوس نہ کرے۔کہانیوں کے کردارجیتے جاگتے ہیں۔آسان اورعام طورپر گھروں میں پائے جانے والے نام اس کتاب کی اہمیت میں مزید چارچاند لگاتے ہیں۔اس کے لیے سماجی شعوروفکر میں بالیدگی کی ضرورت ہے۔معاشرتی سطح پرہوم ورک کی ضرورت ہے۔عارف کسانہ نے ان تمام پہلوؤں کاصرف خیال ہی نہیں رکھا ہے بلکہ اسے عملی جامہ پہنایا جوآپ کے سامنے" سبق آموز کہانیاں"کی شکل میں موجود ہے۔
"سبق آموزکہانیاں " کی مقبولیت نے عارف کسانہ کو دوسری کتاب لکھنے کی طرف متوجہ ہونے پر مجبورکردیا۔کیوں کہ اس قدردل چسپ کتاب کی یقیناًیورپین معاشرے میں بہت کمی تھی۔آفاقی تحریرکی یہی خصوصیت ہوتی ہے کہ اس سے ہرعام وخاص استفادہ کرے۔عارف کسانہ کی اسی تصنیفی کاوش نے انہیں عالمی سطح پر ایک نئے زاویے سے متعارف کرانے میں اہم رول ادا کیا ہے
بچوں کے لئے ان کی دوسری کتاب ’’ سبق آموز کہانیاں ۲‘‘ اشاعت کے آخری مراحل میں ہے۔ اس کتاب میں کل بیس(۲۰) مضامین دلچسپ کہانیوں کی صورت میں شامل ہیں۔ فہرست کچھ اس طرح ہے۔
"بچوں کے حضورصلی اللہ علیہ وسلم،آدم اورفرشتوں کی کہانی،عبادت کا کیا مطلب ہے؟،روزے کیوں فرض کیے گیے ہیں؟، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت اورکائنات کے لیے رحمت، کون سی چیزیں نہیں کھانی پینی چاہیے،دوسروں سے حسن سلوک،اسلام میں جانوروں کے حقوق،جنت میں کون سے لوگ جائیں گے؟،قرآن اپنے بارے میں کیا کہتا ہے،کیا جہاد کا مطلب غیر مسلموں کا قتل کرنا ہے؟،سائنسی ترقی میں مسلمان سائنسدانوں کا کردار،ماحولیات کے بارے میں اسلامی تعلیمات، مسلمان ترقی میں دوسری قوموں سے کیوں پیچھے ہیں؟،غوروفکر اورعلم حاصل کرنا،مستقل اقدار،اسلامی تہذیب وتربیت،سرسیداحمد خان کون تھے؟،بچوں کا اقبال اورکامیاب زندگی کے اصول "۔
ان کی دوسری کتاب کے تمام مضامین ان کی پہلی کتاب سبق آموز کہانیاں کا تسلسل ہے۔موضوعات کی تنوع سے اس تصنیف کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔مسلم بچوں کی تعلیم وتربیت اور اسلامی معلومات پر مشتمل یہ تصنیف عارف کسانہ کی قومی وملی حمیت کی گواہی دے رہی ہے۔اس تصنیف کے بارے میں خودصاحب کتاب لکھتے ہیں:
"بچوں کے لیے میری دوسری کتاب"سبق آموز کہانیاں ۲"آپ کے ہاتھوں میں ہے۔یہ کتاب کیسی ہے،اس کا فیصلہ آپ مطالعہ کے بعد ہی کرسکتے ہیں۔یہ کتاب بچوں کے دین اسلام کے بارے میں کیے گیے سوالات کے دلچسپ کہانیوں کی صورت میں جوابات ہیں۔کہنے کو تو یہ کتاب بچوں کے لیے ہے لیکن حقیقت میں یہ کتاب والدین اوراساتذہ اکرام کے لیے لکھی گئی ہے۔ عام لوگ بھی اسے اپنے ذوق مطالعہ کی تسکین کے لیے مفیدپائیں گے۔یہ کہانیاں قرآن حکیم اورسیرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں لکھی گئی ہیں تاکہ بچوں کی ابتداسے دینی تعلیمات کی روشنی میں تعلیم وتربیت ہوسکے۔اسلام کے بارے میں بچوں کی جانب سے کیے گیے سوالات کے جوابات قرآن اوراسوۂ حسنہ کو مدنظررکھتے ہوئے دلچسپ اورمعلوماتی اندازمیں دیے گئے ہیں"۔
عارف کسانہ نے اپنی تازہ تصنیف میں موصول ہونے والے سوالات کو مدنظر رکھا ہے۔یہ تصنیف بھی سب کے لیے یکساں مفید ہے اوراس سے ایک صالح معاشرے کی تشکیل میں مددملے گی۔ امید کی جاتی ہے کہ بچے ، والدین اور اساتذہ ان کی دوسری کتاب کو بھی بہت پسند کریں گے اور یہ بھی مقبولیت عام حاصل کرے گی۔
LINKS
Daily Lazawal Jammu 16 jan 2019
http://epaper.lazawal.com/index.aspx?page=7
http://epaper.dailyausaf.com/page?station_id=5&date=2019-01-17&page_id=71768
http://epaper.dailyausaf.com/popup.php?newssrc=issues/2019-01-17/71768/e212.gif
https://www.dailydastak.com/overseas2019/01/292.php
http://shanepakistan.com/?p=62208
https://www.urduqasid.se/%D8%B9%D8%A7%D8%B1%D9%81-%D9%85%D8%AD%D9%85%D9%88%D8%AF-%DA%A9%D8%B3%D8%A7%D9%86%DB%81-%D8%A8%DA%86%D9%88%DA%BA-%DA%A9%DB%8C-%D8%B3%D8%A8%D9%82-%D8%A2%D9%85%D9%88%D8%B2%DA%A9%DB%81/
http://urdunetjpn.com/ur/2019/01/18/jnu-university-new-delhi/
http://www.urdufalak.net/urdu/2019/01/17/84301
Other posts
- Why Sweden has differnt Ploicy on Coronavirus
- کرونا وائرس، سائنسی، سماجی اور مذہبی انداز فکر
- آٹھ سال بعد پاکستان میں کیا دیکھا1
- اخوت کے چئرمین ڈاکٹر امجد ثاقب جنوری میں سوئٹزرلینڈ اور اسکینڈے نیویا کا دورہ کریں گے۔
- دل چیر کر رکھ دیا
- (سفر حرمین کے تاثرات (حصہ دوم
- (سفر حرمین کے تاثرات (پہلی قسط
- ہمارا سب سے بڑا مسئلہ
- ہمارا سب سے بڑا مسئلہ
- پیشی