عوام کا دہرا معیار
جہاں بھی دو پاکستانی ملتے ہیں وہ ملکی حالات کا نوحہ پڑھتے ہیں۔ ہماری کوئی بھی محفل ہو اس میں گھوم پھر کر بات پاکستان کے حالات پر آجاتی ہے اور ان خراب حالات کا ذمہ دار اقتدار میں رہنے والوں کو ٹھہرایا جاتا ہے۔ سیاستدانوں، بیوروکریسی اور ذاتی مفاد کے لئے ملک کو نظر انداز کرنے والوں کو مجرم گرد انا جاتا ہے۔ لوگ جب پاکستان کے مسائل اور وہاں کے ناگفتہ بہ حالات پر بحث کرتے ہیں تو ضمیر فروش صحافیوں اور اہل قلم کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ قومی وسائل کے نا جائیز استعمال پر افسر شاہی کو برا بھلا کہتے ہیں اور سب سے زیادہ سیاستدانوں خصوصاً جو اقتدار میں رہے ہوں یا اس پربراجمان ہوں ،انہیں کوستے ہیں۔ بیرون ممالک مقیم پاکستانی جن میں دل پاکستان کی محبت اور بھی زیادہ ہوتی ہے، ان کی تنقید اور غصہ اور بھی شدید ہوتا ہے لیکن المیہ اور منافقت کا یہ عالم ہے کہ وہی عوام جب بر سراقتدار یا اقتدارمیں رہنے والوں میں سے کسی بھی شخص کو ملتے ہیں تو پھولے نہیں سماتے اور ان کے ساتھ تصویریں بنا کر اخبارات اور سوشل میڈیا پر تشہیر کرتے ہیں۔ عوام کی یہ کیسی دو رخی روش ہے کہ جن کو ہر وقت اپنی تنقید کا نشانہ بناتے ہیں ، چور، لٹیرے اور نجانے کیا کیا خطابات دیتے ہیں لیکن انہی کا استقبال کرنے ائیر پورٹ پہنچ جاتے ہیں، انہیں ہار ڈالتے ہیں،ان کے ساتھ تصویریں بناتے ہیں، سیلفیاں لیتے ہیں، استقبالیے دیتے ہیں اور فخر سے تشہیر کرتے ہیں۔ یہ کیسا رویہ ہے بقول میر تقی میر
میرکیا سادہ ہیں، بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں
عوام کو کچھ تو سوچنا چاہیے۔ کیا ان کا بس یہی کام ہے کہ ملک کو لوٹنے والوں کو برا بھلا کہتے رہیں اور جب وہ ملیں ان کے ساتھ تصویریں بنا کر بڑے فخر سے تشہیر کریں۔ ایسے لوگوں کے ساتھ تصویریں بنا کر اور تحائف دے کر آپ کی عزت میں کوئی اضافہ نہیں ہوگا اور نہ وہ لوگ سدھاریں گے۔جن سرمایہ داروں نے ملک کا سرمایہ لوٹا اور قرضی معاف کروائے ،جن سرکاری افسروں نے کرپشن کی، جن علماء اور سیاستدانوں نے قوم کو فرقوں اور گروہوں میں تقسیم کیا ہو انہیں دور سے سلام کریں۔ فرقہ واریت اور تعصبات پھیلانے والوں کے ساتھ کھڑے ہو کر تصویریں بنوانا اور انہیں استقبالیے دینے کی بجائے ان سے لاتعلقی اختیار کرنی چاہیے۔ پاکستان کو بدحالی اور مسائل کا شکار کرنے والے ان عناصر کو نظر انداز کرنا چاہیے اور ان کی آؤ بھگت نہیں کرنی چاہیے تاکہ انہیں احسا س دلانا چاہیے کہ آپ لوگوں کے غلط کردار کی وجہ سے ہم تم سے بیزار ہیں ۔ اگر کہیں ان سے سامنا ہو بھی جائے تو تو تہذیب اور شائستگی کے ساتھ ان کا محاسبہ کریں اور ان سے سوالات کریں تاکہ انہیں علم ہو کہ عوام باشعور ہیں وہ لٹیروں کو سر پر بٹھانے کے لئے تیار نہیں۔ البتہ باکردار اور مخلص رہنماؤں، علماء حق ، اہل قلم، اورفرض شناس حکومتی اہل کاروں کی ضرور عزت افزائی کرنی چاہیے اور یہ ان کا حق بھی ہے۔ ملک لوٹنے والوں اور سنوارنے والوں میں کچھ تو فرق کریں۔ سب کے ساتھ ایک جیسا سلوک نہیں ہونا چاہیے۔عوام کو کچھ تو سوچنا چاہیے۔