سویڈن میں مقیم بچوں کا ادیب عارف کسانہ
پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین۔ جواہر لال نہرو یونیورسٹی دہلی۔
عارف محمود کسانہ سویڈن میں مقیم اردو کے ادیب و کالم نگار ہیں۔وہ پیشے کے اعتبار سے طبی تحقیق کے شعبہ جینیٹک انجنئیرنگ سے وابستہ ہیں اور سویڈن کی معروف میڈیکل یونیوسٹی کارولنسکا انسٹیٹیوٹ سے وابستہ ہیں۔ انھوں نے شوکت خانم کینسر ہاسپٹل کراچی کے قیام کے لیے سویڈن میں کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں اس کے علاوہ وہ اخوت فاؤنڈیشن اور دیگرکئی طرح کے رفاہی کاموں میں وہ مستقل مصروف رہتے ہیں۔ یہ وہ تمام پہلو ہیں جن کی وجہ سے عارف صاحب کی تحسین و تعریف کی جاتی ہے مگر وہ یہیں پررکتے نہیں ہیں بلکہ اپنی تحریروں کی ذریعے مشرق و مغرب کو قریب تر لانے کی کوشش کرتے ہیں۔ان کی شخصیت کے کئی جہات ہیں مگر مہجری ادب میں میرا خیال ہے کہ وہ ادب اطفال کے سب سے نامور ادیب ہیں۔ عارف کسانہ بنیادی طور پرمغرب میں رہتے ہوئے بھی مشرقی تہذیب وتمدن سے نہ صرف لگاؤ اور محبت رکھتے ہیں بلکہ وہ مغرب میں مشرقی اقدار کے تحفظ کے لیے کوشاں بھی رہتے ہیں۔ ان کے کالم اور دیگر مضامین میں اس کی جھلک موجود ہے ان کے کالم کا مجموعہ ’’افکار تازہ ‘‘ مقبول خاص وعام ہوچکا ہے۔ان کے کالم سیاسی ، سماجی ، علمی و ادبی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ وہ ایک بیباک صحافی ہیں جو پیشہ ورانہ طور پر نہیں بلکہ زبان و ملت سے محبت کے سبب لکھتے ہیں اور خوب لکھتے ہیں لیکن بچوں کے لیے جو کہانیاں انھوں نے لکھی ہیں وہ بنیادی طور پر اسی مقصد کی غمازی کرتی ہیں۔ اسکینڈینویا اور یورپ کے دیگر خطوں میں جہاں بھی اردو کی سرگرمیاں ہوتی ہیں عارف صاحب کی موجودگی اس کی کامیابی کی دلیل ہوتی ہے۔ ان کی ادب نوازی اور اردو دوستی قابل صد تحسین ہے۔ ان کی تحریروں میں ایک خاص طرح کی دلکشی اور جاذبیت ہے اس کا ثبوت یہ ہے کہ ان کی کتاب ’’ سبق آموز کہانیاں ‘‘ دنیا کی نو بڑی زبانوں میں ترجمہ ہوچکی ہیں ان میں انگریزی، فرانسیسی، فارسی ، عربی ، ہندی ،بنگالی ، نارویجین اور گوجری شامل ہیں اور میری اطلاع کے مطابق جرمن، ڈینش، سندھی، سویڈش اور جاپانی زبانوں میں ترجمہ کا کام مکمل ہوچکا ہے جبکہ ہسپانوی، اطالوی، پنجابی، پہاڑی،ترکی، روسی ، چینی اور دیگر کچھ زبانوں میں بھی اس کے تراجم ہورہے ہیں۔ اردو میں بچوں کی یہ واحد کتاب ہوگی جو اتنی زیادہ زبانوں میں ترجمہ ہورہی ہے ۔یہ کتاب ایمزون پر بھی موجود ہے اور موبائل ایپ کے ذریعے بھی اس کتاب تک رسائی ممکن ہے۔ عارف کسانہ صاحب اس کتاب کے بارے میں کہتے ہیں کہ’’ یہ آٹھ سے اسّی سال کے بچوں کی کہانیاں ہیں‘‘۔ جلد ہی بچوں کی کہانیوں کا دوسرا مجموعہ شائع ہونے والا ہے۔سبق آموز کہنانیاں پڑھ کر ایسا لگتا ہے کہ عارف کسانہ صاحب کو یا تو پچپن کی یہ باتیں اور تجسس آج بھی بے چین کرتے ہیں یا پھروہ اس موضوع پر لگاتار سوچتے رہتے ہیں۔اسی لئے جب انہوں نے بچوں کے لئے سبق آموز کہانیاں لکھیں تو بچوں کی طرح سوچتے ہوئے چھوٹی ، چھوٹی باتوں اور سوالات کو ذہن میں رکھتے ہوئے ان کی تشریح کو اپنی کہانیوں میں بخوبی سجایا اور سنوارا ہے۔اس موضوع کی بنیاد اور روح دونوں ان کہانیوں میں سمٹ گئی ہے۔اس طرح جو باتیں ابھر کر سامنے آئیں وہ بچوں کیلئے دلچسپ بھی بنیں اور علم کا ذریعہ بھی۔ اس طریقہ کار سے بچوں کے سیکھنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے اور مزید جاننے کا شوق بھی پیدا ہوتا ہے۔ چونکہ عارف کسانہ صاحب نے بچوں کو سکھانے کیلئے یہ موضوع چنا جسے جاننا ان کیلئے لازمی ہے تاکہ بڑے ہوکر ان کی سیکھنے کی طلب بڑھے اور وہ خود اس تعلق کے حوالے سے چھان بین کر کے اپنے علم میں اضافہ کریں اور اس پر عمل بھی کریں۔ یہی اس کتاب کا مقصد ہے۔ میرے خیال میں یہ بہت قابلِ ستائش ہے اور ان کی اس کوشش کی تعریف کی جانی چاہیئے۔مجھے لگتا ہے کہ یہ چھوٹی سے کتاب اور اس میں شامل کہانیاں بچوں کو اپنا مذہب اور اسکی اہمیت جاننے میں مدد گار ثابت ہونگی۔ عارف کسانہ صاحب کی یہ کوشش بچوں کے ادب میں ایک قابل قدر اضافہ ہے۔سویڈن میں وہ ایک متحرک تنظیم ’’اسٹاک ہوم اسٹڈی سرکل ‘‘ کے بھی روح رواں ہیں جس کے تحت ہر ماہ باقاعدگی سے پروگرام منعقد کرتے ہیں جن میں قرآن حکیم کو مضامین کے اعتبار سے سمجھتے ہوئے زندگی کے عملی مسائل کے لئے راہنمائی حاصل کی جاتی ہے۔ 2006 ء سے جاری اس سلسلہ میں فکر قبال بھی شامل ہے ۔ وہ سویڈن میں کئی بڑے ادبی پروگرام منعقد کراتے رہے ہیں۔ ان کی انہی کوشش کی سبب مہجری ادب میں ان کو ایک خاص اور بلند مقام حاصل ہے۔ ہندستان کی کئی یونیورسٹیز کے مقالو ں میں ان کی کتاب کو شامل تحقیق کیا گیا ہے۔وہ ایک صحافی کی حیثیت سے بھی یورپ میں اردو کے فروغ کے لئے کام کررہے ہیں اور حکومت سویڈن کے تحت قائم فارن پریس ایسوسی ایشن کے بھی رکن ہیں۔
عارف محمود کسانہ کا تعلق پاکستان سے ہے۔ دائرہ العارف میں ان کا تعارف یوں لکھاہوا ہے ’’ ابتدائی تعلیم چونڈہ اور کوریکی ضلع سیالکوٹ سے حاصل کی۔ چھٹی سے دسویں تک گورنمنٹ پائیلٹ ہائی اسکول بھمبر آزاد کشمیر اور میٹرک 1980ء میں کیا۔ ایف ایس سی (پری میڈیکل) گورنمٹ مرے کالج سیالکوٹ سے مکمل کیا۔ زرعی یونیورسٹی فیصل آباد سے چار سال میں پروفیشنل گریجوایشن کرنے کے بعد پنجاب پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کرکے 1988ء میں ویٹرینری آفیسر ہیلتھ کی حیثیت سے ملازمت اختیار کی۔ کالج آف ویٹرینری سائنسز لاہور( موجودہ یونیورسٹی آف ویٹرینری اینڈ اینیمل سائنسز) سے 1990ء میں ایم ایس سی (آنرز) کیا۔ لاہور قیام کے دوران اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی سے کشمیری زبان و ادب میں سرٹیفکیٹ اور ڈپلومہ حاصل کیا۔ سرٹیفیکیٹ کورس میں سلور میڈل بھی حاصل کیا۔ زرعی یونیورسٹی فیصل آباد سے قاری کورس اور عربی زبان میں ایک سالہ ڈپلومہ بھی کیا۔ پرائیویٹ طالب علم کی حیثیت سے پنجاب یونیورسٹی لاہور سے بی اے اور ایم اے( تاریخ ) کیا۔ سویڈن میں 1995 میں آنے کے بعد یہاں کی معروف میڈیکل یونیورسٹی، کارولنسکا انسٹیٹیوٹ سٹاک ہوم سے ایمبریالوجی میں پوسٹ گریجوایٹ ڈپلومہ اور چند اور کورسسز بھی کیے۔‘‘ یہ تو ان کی زندگی کے احوال ہیں اور سوانحی تعارف ہے لیکن اب ان کا سب سے بڑا تعارف یہ ہے کہ وہ مہجری ادب میں ادب اطفال کے بڑے ادیب ہیں۔ اللہ ان کو سلامت رکھے۔(آمین)
#arifkisana #ekramkhawaja
LINKS
https://www.dailyausaf.com/epaper/popup.php?newssrc=issues/2019-04-16/79401/e214.gif
http://sachkiawaz.com/epaper/11-04-2019/
http://urdunetjpn.com/ur/2019/04/17/dr-khwaja-ekramuddin-from-jnu-new-delhi/
http://shanepakistan.com/?p=64337
Other posts
- Why Sweden has differnt Ploicy on Coronavirus
- کرونا وائرس، سائنسی، سماجی اور مذہبی انداز فکر
- آٹھ سال بعد پاکستان میں کیا دیکھا1
- اخوت کے چئرمین ڈاکٹر امجد ثاقب جنوری میں سوئٹزرلینڈ اور اسکینڈے نیویا کا دورہ کریں گے۔
- دل چیر کر رکھ دیا
- (سفر حرمین کے تاثرات (حصہ دوم
- (سفر حرمین کے تاثرات (پہلی قسط
- ہمارا سب سے بڑا مسئلہ
- ہمارا سب سے بڑا مسئلہ
- پیشی