ٓٓٓاسرائل کی طاقت کا راز ۔ ہم کیا کردار ادا کرسکتے ہیں
کیا دنیا غزہ کے آخری شہری کی ہلاکت کا نتظار کررہی ہے۔ کیا مردہ عالمی ضمیر میں جنبش پیدا نہیں ہوگی۔ کیا عالم اسلام بے حسی اور ذلت کا کوئی نیا ریکارڈ بنانے میں مصروف ہے۔ اگر دنیا میں اتنے جانوروں کا س قدر بے دردی سے مارا جاتا تو پوری دنیا کے میں کہرام مچ جاتا مگر کیا غزہ کے بازندے کیا جانوروں سے بھی کم تر ہیں کہ اسرائیل کو کوئی روکنے والا نہیں۔ برطانیہ نے امت مسلمہ کے سینے میں جو دو بڑے گھاؤ لگائے تھے وہ ایسا ناسور بنے ہیں کہ اُن سے بہنے والے خون کی مثال تاریخ عالم میں مل ہی نہیں سکتی ۔ کشمیر اور فلسطین دونوں برطانیہ کے پیدا کردہ مسائل ہیں کہ ان کی وجہ سے لاکھوں انسان کا خون بہا ہے اور کروڑوں بے گھر ہوکر ابھی بھی کسمپرسی کی زندگی بسر کررہے ہیں۔ ہندوستان کو تقسیم کرتے وقت انہیں اتنی عجلت تھی کہ مسئلہ کشمیر کو ادھورا چھوڑ کر بھاگ گئے اور ایک ایسا مسئلہ چھوڑ گئے جو لاکھوں انسانوں کو نگل گیا اور اب تک جنوبی ایشیا امن و سلامتی سے محروم ہیجبکہ کشمیری اپنی آزادی کے لیے لہو کے چراغ جلارہے ہیں۔ یہ بھی برطانوی سامراج ہی تھا جس نے پہلی جنگ عظیم کے بعد فلسطین پر قبضہکیا اور پھر اس کے وزیر خارجہ نے2 نومبر 1917کو برطانوی پارلیمنٹ میں اسرائیل کے قیام کا منصوبہ پیش کیا جو اعلان بالفور کے نام سے موسوم ہے جو کہ 1862میں ایک جرمن یہودی کے نظریہ کے مطابق تھا جس نے آزاد یہودی ریاست کا نظریہ پیش کیا۔ اسی کے تحت 1936میں برطانیہ نے فلسطین کے تقسیم اور اسرائیل کے قیام کی تجویز پیش کی۔جسے اقوام متحدہ سے منظور کرواکے 14مئی 1948کو باقاعدہ اسرائیل کے قیام کا اعلان کردیا۔ عربوں نے اس علان کو تسلیم نہ کیا اور انہوں نے اسرائیل سے 1967 ,1956, 1948اور1973میں جنگیں کیں مگر ان جنگوں میں اسرائیل نے مزید علاقے ہتھیاکر اپنی بالادستی قائم کردی۔ امریکہ چونکہ اسرائیل کا سب بڑا حمایتی ہے بلکہ دوسرے الفاظ میں اسرائیل اور امریکہ دونوں ایک ہی ہیں اس لیے عربوں نے بلاآخر یہ تسلیم کرلیا کہ وہ اسرائیل سے نہیں لڑ سکتے لہذا مصر نے 1978میں اسرائیل کے ساتھ کیمپ ڈیوڈ معائدہ کے تحت صلح کرلی اور آخر کا تنظیم آزادی فلسطین نے بھی ستمبر 1993اوسلوامن معائدہ کے تحت اسرائیل سے معائدہ کرلیا لیکن وہ معائدہ بھی امن کا غامن نہ بن سکا اور نہ ہی آزاد فلسطینی ریاست کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکا۔فلسطینی گذشتہ باسٹھ سالوں سے آزادی کے لیے بے پناہ قربانیاں دے رہے ہیں۔ 8 جولائی سے اسرائیل نے غزہ پر جس قدر ظلم و ستم کیا ہے اس کی تاریخ عالم میں مثال نہیں ملتی ۔اسرائیلی بربریت نے تاریخ عالم انسانی کے ظالم ترین کرداروں کو بھی شرمندہ کردیاہے اور دوسری طرف مردہ عالمی ضمیر اور عالم اسلام نے بھی بے حسی کی ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔
مسلمانوں کے دشمن خوش نصیب ہیں کہ اب انہیں مسلمانوں کو غلام بنانے اور انہیں تباہ کرنے کے لیے افرادی قوت کو استعمال نہیں کرنا پرتا کیونکہ یہ کام مسلمان خود اُن کے اشارے پر انجام دے رہے ہیں۔ اب تو بات ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ مسلمان حکمرانوں نے اسرائیل کے قیام کی مخالفت نہ کی اور خود فلسطینیوں نے لالچ میں آکر اپنی زمینیں فروخت کرکے یہودیوں کو وہاں آباد کیا۔ غزہ پر حالیہ اسرائیلی جارحیت پر عرب حکمرانوں کی خاموشی معنی خیز ہے اور یہ بھی خبر ہے کہ ایک اہم ترین عرب ملک کی خفیہ ایجنسی کا اسرائیل کی خفیہ ایجنسی سے برابر رابطہ ہے اور انہوں نے اسرائیل کو یقین دلایا ہے کہ وہ اس کی مخالفت نہیں کریں گے۔ صرف ترکی اور قطر کے بارے میں حماس نے کہا ہے کہ وہ اُن کے ساتھ مخلص ہیں اور ایران بھی ان کا معاون ہے۔ عرب ممالک حماس کے ایران کے ساتھ تعلقات کی وجہ سے اسے اسرائیل کے ہاتھوں سبق سیکھا رہے ہیں۔ مسلم ممالک میں اس بار عوامی مظاہرے بھی اس شدت کے ساتھ نہیں ہوئے جو کہ پہلے ہوا کرتے تھے۔ عالم اسلام تو سٹاک ہوم، لند ن، گلاسگواور دوسرے یورپی شہروں میں بڑے مطاہرے ہوئے ہیں۔عالم اسلام سے تو لاطینی امریکہ کے ممالک نے اسرائیلی ظلم و تشدد کی بھر پور مذمت کرکے اس کے خلاف اقدامات بھی اٹھائے ہیں۔ وینزویلا اور جنوبی افریقہ نے اسرائیلی سفیروں کو واپس بھیج کر مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا ہے جبکہ سویڈن جو کہ ایک غیر جانبدار ملک کی حیثیت سے جانا جاتا ہے اس نے اسرائیلیصدر شمون پریز کو ناروے جانے کے لیے اپنی فضائی حدود استعمال کرنے سے روک دیا اور پہلے سے دی ہوئی اجازت واپس لے لی اور اسرائیلی صدر کومجبوراََ ڈنمارک کی فضائی حدود سے گذر کر جانا پرا۔
اسلام دشمنوں نے مسلمانوں کے درمیان نیشنل ازم اور تعصبات کے جو بیج بوئے تھے وہ اب تناور درخت بن چکے ہیں اور کسی ایک مسلمان ملک کے اپنے ہمسایہ سے اچھے تعلقات نہیں۔ فرقہ وارانہ اختلافات کو اس قدر چالاکی سے مسلمانوں بڑحایا ہے اب وہ ایک دوسرے پر کفر کے فتوے لگا کر فریق مخالف کے گلے کاٹ رہے ہیں۔ مسلمانوں میں جہادی گروپوں کی معاونت کرکے اسلام کا چہرہ مسخ کرنے کی پوری کوشش کی ہے۔ ہر ذی شعور شخص جانتا ہے دور حاضر کے فتنہ خروج کی مدد کون کررہا ہے ، القائدہ، طالبان، داعش اور دیگر عناصر کن کی پشت پناہی سے سرگرم ہیں۔ لارنس آف عریبیا اور ہمفرے کی کرداروں کو تسلسل آج بھی جاری ہے اور ان فسادی عناصر سے انبیاء اکرام کی قبریں اور مساجد بیھی محفوظ نہیں جنہیں غیر مسلموں نے بھی نقصان نہیں پہنچایا تھا۔ مسلمان حکمران اپنی اپنی حکومتیں بچانے کے کسی بھی سطح تک جانے کے لیے تیار ہیں اور جو باقی ہیں انہوں نے شاہ فیصل، ذوالفقار علی بھٹو، صدام اور قذافی کے المناک انجام سے ڈر کر خوف ذدہ ہوکر بیٹھے ہیں۔ اس لیے عالم اسلام سے کوئی توقع کرنا عبث ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس صورت حال سے نکلنے کا حل کیا ہے؟اب کِیا کیا جائے۔اخبارات میں شائع ہونے والے کالم ہوں یاتجزیے، ٹی وی کے ٹاک شو ہوں یا سوشل میڈیا کے تبصرے سب صورت حال کی پس منظر اور واقعات کے گرد گھومتے ہیں لیکن کوئی قابل عمل منصوبہ پیش نہیں کرتا۔ اپنی خواہشات کا اظہار کیا جاتا ہے کہ مسلم ممالک یہ کریں، اقوام متحدہ وہ کرے ، فلاں ایسے کرے۔ ہمارے دانشوروں کو اسسوچ کے حصار اور یوٹوپیا سے باہر نکل کرسوچنا ہوگا۔ عالم اسلام، اقوام متحدہ اور عالمی ضمیر نے اگر کچھ کرنا ہوتا تو وہ کر گذرتے مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا اس لیے اب تو فریب نفس سے باہر نکل آنا چاہیے۔ دوسری سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیوں ایک ارب ساٹھ کروڑ مسلمان صرف ایک کروڑ چالیس لاکھ یہودیوں کے سامنے بے بس ہیں۔61 لاکھ یہودیوں کا اسرائیل کیوں اتنا طاقتور ہے کہ ہو جو چاہے کرتا ہے اور کوئی اس کو روکنے والا نہیں۔ دنیا میں بے خانماں اور در بدر پھرنے والی یہودی قوم آج اس قدر طاقتور کیسے بن گئی۔ اسی یورپ میں جب یہودی کسی بستی ہیں آتے تھے تو ان کو وہاں سے نکال دیا جاتاتھا مگر آج یورپ کو وہ کیسے قابو کیے ہوئے ہیں۔ جواب کوئی مشکل یا پیچیدہ نہیں ہے۔ انہوں نے محنت کی، اپنا دماغ استعمال کیا، علوم وفنون میں مہارت کی ، سائنس اور ٹیکنالوجی میں ایسے بڑھے کہ 193 نوبل انعامت لے اڑے۔ لاہور سے کم آبادی والے ملک کی تین یونیورسٹیاں دنیا کی پہلی ایک سو بہترین یونیوسٹیوں میں شامل ہیں۔ یہی اسائیل کی طاقت کا راز ہے جس نے اُسے سائنس اور ٹیکنالوجی کی بدولت دنیا پر اپنا تسلط قائم کرنے کا موقع دیا ہے۔ آج اسرئیل کے بائیکاٹ کے نعرے بھی قابل عمل نہیں رہے اور ایسا کہنے والے کمپوٹرکیUSB اور موبائل فون پر Viberاستعمال کررہے ہیں جوکہ اسرائیل کہ ہی ایجاد ہیں۔اُس کی 45 ایجادات ایسی ہیں کہ جو روز مرہ کے معاملات میں ناگزیر ہیں۔ اس صہیونی ریاست نے کیمیا، طبیعات، طبی سائنس، کمپوٹر، توانائی، زراعت، امور حیونات، جینیات، معاشیات، دفاعی امور، خوراک اور دیگر شعبہ جات میں ایسی ایجادات اور ترقی کی ہے کہ اُن کا بائیکاٹ ممکن نہیں رہا ۔ مسلم دنیا اور اسرائیل میں بس یہی فرق ہے۔ اگر فلسطینی بھی اتنے ہی ترقی یافتہ ہوتے تو کیا اسرائیل ایسی جارحیت کی جرات کرتا، کبھی نہیں۔ مسلم دنیا بے عملی، جہالت، سستی اور علم کی روشنی سے دور رہی جس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ قرآن حکیم بار بار غور وفکر، تحقیق و جستجو اور کائنات کے علوم جاننے کا حکم دیتا ہے مگر ہم نے اُسے پس پشت ڈال کر دین کو مذہب میں بدلا اور پھر رسمی عبادات کو ہی سب کچھ سمجھ لیا جس کا نتیجہ قانون قدرت کی رو سے ذلت و رسوائی ہمارے سامنے ہے کیونکہ
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات
ہمیں جذبات اور تصورات کی دنیا سے نکل کر حقیقت پسندانہ انداز میں اپنا لائحہ عمل بنانا ہوگا۔ اندھیرے کو کوسنے کی بجائے اپنا چراغ درست کرنا ہوگا۔ Knowledge is Power کو امت مسلمہ کے ہر فرد کو سامنے رکھنا چاہیے۔ جرمنی، جاپان اورایسی دوسری اقوام سے سبق سیکھنا ہو گا جنہوں نے شکست کے بعد علم کی شمع ہاتھ میں لے کر ایک نئے عزم اور ولولہ سے جدوجہد کرکے دنیا میں پھر اپنا مقام حاصل کرلیا۔ امت مسلمہ کو فکر سرسید سے رہنمائی لینا ہوگی گی شکست خوردہ قوم صرف جدید علوم سے ترقی اور عزت حاصل کرسکتی ہے اور یہ اسلام کی تعلیم کا بنیادی نقطہ بھی ہے۔ اقوام عالم یا مسلمان حکمرانوں سے بہتری کی توقع عبث ہے اس لیے عوام کو خود ہی کچھ کرنا ہوگا۔ ہر خاندان اور شخص یہ ذمہ داری محسوس کرے کہ اُسے اپنے حصہ کا کام کرنا ہے اور کرنا یہ ہے کہ اپنے بچوں کو جدید تعلیم کے زیور سے آراستہ کریں۔ اسرائیلی وزیراعظم گولڈا مئیر نے اسرائیلی بچوں کو یہی پیغام دیا تھا کہ اگر تم تعلیم میں پیچھے رہ گئے تو یہ عرب تمہیں کچا کھا کھاجائیں گے اور اس نصیحت کو اسرائیلی بچوں نے پلے باندھ لیا جس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ ہم اپنے بچوں، اپنے رشتہ داروں، دوست احباب اور حلقہ اثر کے نوجوانوں میں اگر وہ جذبہ محرکہ بیدار کردیں جو اُن میں علم وجستجو کا جنون پیدا کردیں تو پھر دو تین نسلوں کے بعد جا کر کہیں حالات اپنے ڈھب پر آسکیں گے۔ صدیوں کی غفلت اور کوتاہی کا ازالہ مہینوں اور سالوں میں نہیں ہوسکتا بلکہ اس کے لیے ایک طویل مدت درکا ر ہے اور تب تک ایک کڑے وقت سے گذرنا ہوگا۔1857 کی جنگ آزادی میں شکست کے بعد سرسید نے قوم کو یہی مشورہ دیا کہ اب تعلیم اور سائنس و ٹیکنالوجی کی تعلیم حاصل کرکے ہی دوبارہ عروج حاصل کیا جا سکتا ہے۔علی گڑھ تحریک کا ثمر نوے سال بعد 1947میں پاکستان کی صورت میں ملا اور تاریخ دان اس بات پر متفق ہیں کہ اگر سرسید علی گڑھ میں تعلیمی سلسلہ شروع نہ کرتے تو پاکستان کی پ بھی بن پاتی۔ امت مسلمہ کو زوال سے نکلنے کے لیے سرسید کی راہ اپنانا ہوگی کونکہ اس کے سوا اور کوئی قابل عمل اور ممکن حل نہیں ہے۔ خالی نعروں، جلسے جلوسوں، قرارداوں اور جذباتی باتوں سے کچھ تبدیلی نہیں ہوئی اور نہ ہی ہوسکے گی۔ لہذا ہر فرد کو اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے قوام کی تقدیر بدلنے میں اپنا کرادر ادا کرنا ہوگا بقول اقبال
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر ہر فرد ہے ملت کے مْدر کا ستارہ
غزہ کے شہیدوں کو ہم سلام پیش کرتے ہیں ، انہوں نے قربانیوں کی ایک لازوال داستاں رقم کی ہے۔ یہودیوں کی اپنی تاریخ نہیں بھولنی چاہیے اور اُن کے تمام مظالم کا حساب مکافات عمل سے انہیں ضرور ملے گا اگرچہ اس میں وقت لگے گا مگر وہ ہوگا ضرور۔ اور فلسطینی شہیدوں کا لہو رنگ لائے گا اور اسی سے اُن کی صبح آزادی طلوع ہوگی کیونکہ
خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا