آزادی صحافت اورمیڈیا کا اپنا کردار
میڈیا کو ریاست کے چوتھے ستون کی حیثیت سے اس کی اہمیت تسلیم کی جاتی ہے۔ کسی بھی قوم میں تبدیلی لانے میں اس کا آزاد میڈیا بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ عوام الناس کو اصل حقائق سے آگاہی کوئی آسان کام نہیں اور دنیا کے بعض ممالک جن میں پاکستان بھی شامل ہے صحافیوں کے لیے خطرناک ممالک شمار کیے جاتے ہیں جہاں آزاد اور بے باک صحافت کے لیے کام کرنے والوں کو جہاں ایک طرف سرکاری اداروں کے دباؤ کا سامنا ہوتا ہے وہیں مختلف جماعتوں، گروہوں، تنظیموں اور افراد کی جانب سے بھی جبر اور تشدد کا سامنا رہتا ہے جس کی بعض اوقات اہل قلم کو بھاری قیمت چکانا پڑتی ہے اور کئی اس راہ حق میں اپنی جاں تک کا نذرانہ پیش کردیتے ہیں۔آزادی صحافت اور اعلٰی اقدار کے لیے ہمیشی جدوجہد کران پڑتی ہے لیکن تصویر کا دوسرا رخ بھی ہے اور وہ یہ کہ خود میڈیا اور اس سے وابستہ لوگ آازدی صحافت کی راہ میں کس قدر رکاوٹ اور ذمہ دار ہیں۔ کیا میڈیا خود اپنے استحصال میں ملوث نہیں ہے۔یہی وہ پہلو ہے جس پر بہت ہی کم لکھا اور بولا جاتا ہے اور اس کی وجہ بھی واضع ہے کہ کون اس کے خلاف آواز بلند کرے کون کرے گا جب میڈیا خود ہی ذمہ دار ہو۔ اسی اہمیت کے پیش نظر میں نے صدائے حریت بلند کرنے کا فیصلہ کیا ہے اب معلوم نہیں کہ میری یہ تحریر قارئین تک پہنچتی بھی ہے یا نہیں لیکن اپنا فریضہ تو ادا کردیا ہے۔
اگر کسی میڈیا گروپ یا اخبار سے کوئی غلطی سر زد ہوجائے تو بجائے اصلاح اور بہتری کے لیے میڈیا میں موجود حریف اس کو اچھالنے اور نشان عبرت بنانے کی پوری سعی کرتی ہیں حالانکہ وہ یہ نہیں سوچتے کہ کل کو ان سے بھی کوئی غلطی سر زد ہوسکتی ہے۔ موقع ملنے کی دیر ہے اخباارات کے صفحات سیاہ ہوتے جائیں گے اور ٹی اینکروں کی تو عید ہوجائے گی۔آج جس میڈیا کو ملک دشمن اور اسلام دشمن قرارجارہا ہے ممکن ہے ماضی وہ لوگ اسی سے وابستہ رہے ہوں یا مستقبل میں پرکشش مراعات انہیں وہیں کھینچ لائیں لیکن اس وقت ہوا کے گھوڑے پر سوار ہو کر اپنے حریف میڈیا کو لتاڑنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ ایک وقت تھا صحافی حرمت قلم کے امین ہوتے تھے۔ وہ پرانی سائیکلوں پر سفر کرتے تھے اور تنگ و تاریک گلیوں کے مکانوں میں بڑے قد اور اعلٰی اوصاف کے حامل صحافی رہا کرتے تھے۔ مگرآج بڑی بڑی گاڑیوں میں سفر کرنے والے اور بڑے بڑے محلات میں رہنے والے صحافی بہت چھوٹے قدوقامت کے ہوگئے ہیں۔ اس بازار میں شائد چند ہی ہیں جو اپنا دامن بچا کے صحافت کی لاج رکھے جبر اور مفادات کو ٹھکرائے ہوئے کھڑے ہیں، باقی سب بکتا ہے۔ دنیا ئے صحافت کے ان بڑے ناموں کی تنخواہ اور آمدن کا موازنہ اُن کے رہن سہن سے کرنا کوئی مشکل نہیں۔ جب کبھی ان پر مالی مفادات لینے کا الزام آتا ہے تو بجائے اُس کاجواب دینے کے اِدھر اُدھر کی باتیں کرکے اپنی روش پر برقرار رہتے ہیں۔ یہ لفافہ جرنلزم کی اصطلاح کیوں معرض وجود میں آئی؟ ابھی حال ہی میں پاکستان کے کچھ معروف صحافیوں پر مالی مفادات لینے کی خبریں اور فہرستیں سامنے آئیں۔ اس سے قبل ملک ریاض کی جانب سے بڑے نامی گرامی صحافیوں کو پلاٹ اور رقوم دینے کی فہرست بھی سامنے آئی لیکن کسی ایک صحافی یا اینکر نے الزامات لگانے والوں کو عدالت میں چیلنج نہ کیا اور نہ ہی واضع طور پر اس کی تردید کی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ محض الزمات نہیں تھے۔ میں ایک عام سا صحافی ہوں، کوئی شخص میڈیا یا اخبارات میں مجھ پر مالیاتی کرپشن کا الزام لگائے ، کسی بھی سرکاری غیر سرکاری ادارے ، تنظیم یا شخصیت سے مالی یا کوئی اور مفاد کا الزام عائد کرے تو میں خاموش نہیں رہوں گا بلکہ لازمی اس معاملہ کو عدالت میں لے جاؤں گا اور ازالہ عرفی کی صورت میں اُسے انجام کارتک پہنچاؤں گا۔ مگرجو مالیاتی کرپشن کے الزامات پر خاموش ہیں کیا کہیں وہ الزامات سچ تو نہیں ہے۔
صحافت کا سب سے بڑا صول غیر جانبداری ، عدل و انصاف اور اپنے ضمیر کی آواز بلند کرناہے ۔ انہیں اصولوں کو مد نظر رکھتے ہوئے خبریں، رپورٹیں، کالم، تجزیے اور تبصرے قارئین اور ناظرین کو پیش کرنے چاہیں لیکن آپ اخبارات ملاحظہ کرلیں اور ٹی وی کے ٹاک شو دیکھ لیں ، غیر جانداری کا جنازہ نکلا ہوا نظر آئے گا۔ کالم نگاروں اور اینکروں کی غالب اکثریت پوری طرح جانبدار ہے۔ اگر وہ حکومت کا دم بھرتے ہیں تو انہیں حزب مخالف کی کوئی ایک بات بھی درست نظر نہیں آتی اور اگر وہ حزب اختلاف کی طرف داری کرتے ہیں تو وہ حکومت کی ہر بات میں کیڑے نکالتے ہیں اور اکثر اوقات تو وہ صحافیوں سے زیادہ اپنی اپنی پسند کی جماعت کے ترجمان معلوم ہوتے ہیں۔ بہت سے ایسے بھی ہوتے ہیں جو یو ٹرن کے ماہر ہوتے ہیں اور اس مقولہ پر عمل کرتے ہیں کہ چلو تم اُدھر کو ہو جدھر کی ہوا۔ یہ سب کچھ کرتے ہوئے وہ اپنی پاک دامنی اور آزادی صحافت کا رونا بھی روتے جاتے ہیں۔ ایک میڈیا گروپ دوسرے ادارہ کی بُری خبر کی خوب تشہیر کرے گا جبکہ اچھی خبر کو کبھی بھی منظر عام تک نہیں آنے دے گا۔ کیا یہ آزادی صحافت ہے؟پاکستان میں چالیس سے زائد صحافیوں کو قتل کیا گیا مگر اُن شہید صحافیوں کے اداروں نے اُن کے لیے کیا کیا۔ ہاں یہ ضرور کیا کہ اس بہنے والے خون کی خوب تشہیر کرکے اپنے میڈیا گروپ کی شہرت میں اضافہ کی کوشش کی۔ جن صحافیوں کو اپنی جان کا خطرہ ہوتا ہے اُن کے لیے کیا کیا۔ اگر میڈیا اپنے صحافیوں کو تحفظ دے سکتا تو حافظ عمران سویڈن آکر پناہ نہ لیتا اور بہت سے دوسرے صحافی اپنی جانیں بچانے کے لیے ملک بدری نہ اختیار کرتے۔
صحافی معاشرہ میں ہونے والی ناانصافیوں اور زیادتیوں کو تو اجاگر کرتے ہیں مگر اُن کے ساتھ ہونے والی انصافیوں اور حقوق کے لیے کون لڑے گا اوروہ بھی اُس صورت میں جب صحافیوں کو میڈیا مالکان سے ہی انصافی کی شکایات ہوں۔ بہت سے اخبارات اپنے نمائدگان کو کسی قسم کا اعزازیہ نہیں دیتے اور مفت اُن کی خدمات لیتے ہیں بلکہ کئی اخبارات تو پریس کارڈ جاری کرنے کی اچھی خاصی رقم بٹورتے ہیں اس سے کرپشن کا دروازہ کھلتا ہے اور وہ صحافی خبریں لگانے کے لیے لوگوں سے مال بٹورنا شروع کردیتے ہیں۔ اور اس صورت حال کا اخبارات کی انتظامیہ کو بخوبی علم ہوتا ہے اور وہ یہ سب ہونے دیتے ہیں بلکہ کئی تو اپنا حصہ بھی وصول کرتے ہیں۔ مجھے ایک ضلع کے صحافیوں نے خود بتایا کہ ہم سب نے طے کیا ہے کہ جو بھی پریس کلب میں آکرپریس کانفرس کرے گا اُس سے ایک خاص رقم وصول کی جائے گی۔ بعض جگہوں پر صحافیوں نے سیاستدانوں اور اہم افراد سے ماہانہ رقم طے کی ہوتی جس کے عوض وہ اُن کی خبریں لگواتے ہیں اور کئی صحافی مختلف کاروباری اداروں اور یہاں تک کہ سرکاری اداروں سے منتھلیاں وصول کرتے ہیں۔ ٹی وی چینلز کا ریٹ تو اور بھی زیادہ ہوتا ہے۔ اہم مقامات ہر اخبارات اور ٹی وی کی نمائدگی کے لیے بہت اہم سفارش اور خاصی رقم کی ضرورت ہوتی ہے ۔ سوال یہ ہے کہ میڈیا اور صحافیوں کی اپنی کرپشن کے خلاف آواز کون بلند کرے گا۔